ارنا کے نامہ نگار کے مطابق، ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 3 ہفتے قبل پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد برصغیر میں انتہائی کشیدہ صورتحال نے ایک بار پھر خطے میں دو جوہری پڑوسیوں کی حیثیت سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان تصادم کے سنگین خدشات کو جنم دیا۔
ایران ان اولین ممالک میں شامل تھا جنہوں نے پہلگام میں ہونے والے واقعے کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تناو پر تشویش کا اظہار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے لیے تہران کے تعاون کی پیشکش کی۔ اس سلسلے میں انہوں نے 5 مئی کو اسلام آباد کا ایک اہم دورہ کیا اور پاکستان کے اعلیٰ سیاسی اور فوجی حکام سے ملاقاتیں کیں۔
تین دن بعد، ایران کے وزیر خارجہ نے ہندوستان کا سرکاری دورہ کیا اور دوطرفہ مشاورت سے برصغیر میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کی کوشش کی۔
ایران کے صدر مسعود پزشکیان نے بھی پاک ہند وزرائے اعظم کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی اور دونوں ممالک سے درخواست کی کہ وہ تحمل سے کام لیں اور پرامن بات چیت کے ذریعے کشیدگی کو حل کریں۔
تاہم، دونوں پڑوسیوں کے درمیان صورت حال فوجی تنازعہ تک پہنچ گئی۔
ہندوستان نے پاکستانی سرزمین پر (7 مئی کی صبح) ایک آپریشن شروع کر دیا۔ نئی دہلی نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کیا گیا تھا۔ پاکستان نے جواب میں 6 بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرانے کا دعویٰ کیا۔
پاکستان کے بعض حصوں پر ہندوستان کا دوسرا میزائل حملہ ہفتہ، 10 مئی کی صبح ہوا، پاکستانی فوج کی جانب سے ہندوستانی سرزمین پر "آپریشن بنیان المرصوص" کے نفاذ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد اسی شام دونوں پڑوسی ممالک نے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا۔
پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ رات (جمعہ) اسلام آباد میں کہا کہ ہندوستان اور پاکستان کو پرامن پڑوسیوں کے طور پر تنازعہ کشمیر سمیت اپنے درمیان تمام مسائل کو حل کرنا چاہیے۔
پاکستانی اور ہندوستانی افواج کے ملٹری آپریشنز کمانڈرز نے ایک دوسرے سے 3 بار فون پر بات کی اور اب چوتھی بات چیت کل (اتوار) کو ہونے والی ہے۔
پاکستان ایران کی پرامن سفارت کاری کو سراہتا ہے
اس سلسلے میں، پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان، جو کہ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل (آئی ایس پی آر) کے نام سے جانے جاتے ہیں، نے IRNA کے ساتھ خصوصی انٹرویو میں جنوبی ایشیا کی تازہ ترین صورتحال، بھارت کے ساتھ کشیدگی میں پاکستان کے بیانیے، کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے لیے علاقائی اور بین الاقوامی سفارت کاری کی اہمیت، ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ اسلام آباد، مسائل کے حل، قیام امن اور بھارت کے ساتھ جنگ بندی کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی۔
اس خصوصی انٹرویو میں، جو ایران کے سرکاری میڈیا کے ساتھ پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان کا پہلا انٹرویو ہے، جنرل احمد شریف چوہدری نے خطے میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے حوالے سے تہران کی کوششوں اور تعاون کو سراہا۔
انہوں نے کہا کہ ہم عالمی برادری اور برادر ممالک بالخصوص ایران کے شکر گزار ہیں جنہوں نے کشیدگی کو کم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا نے دفاع کے پاکستان کے جائز حق اور موقف کو تسلیم کیا ہے۔ پہلگام کے واقعے سے پہلے اور اس واقعے کے بعد حالات کو کس طرح سنبھالنا چاہیے تھے، اور پھر پاکستان پر الزام لگانے کے بعد آخر کار ہندوستان نے پاکستان میں شہریوں اور مساجد کو حملے کا نشانہ بنایا۔
احمد شریف چوہدری نے کہا کہ دنیا نے پاکستان کے مؤقف کو سراہا اور ایران سمیت عالمی برادری کو پتہ ہے کہ ہمارے مشرقی پڑوسی کے رویے سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے اور پاکستانی مسلح افواج نے دانشمندی اور تحمل کے ساتھ ان اشتعال انگیز کارروائیوں کا جواب دیا ہے۔
پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان نے زور دے کر کہا کہ ہم عالمی برادری اور برادر ممالک بالخصوص ایران کے شکر گزار ہیں جنہوں نے کشیدگی کو کم کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔
انہوں نے برصغیر میں امن ڈپلومیسی کے خلاف دشمن کی سازشوں کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ خطے میں ایسی طاقتیں موجود ہیں جو بیرونی عوامل کی مدد سے خطے کے برادر ممالک کے درمیان غلط فہمی اور انتشار اور دوستوں اور بھائیوں کے درمیان بدگمانی پیدا کرنا چاہتی ہیں۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے اس بات پر زور دیا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان قدیم تاریخی اور برادرانہ تعلقات ہیں اور ہم ہمیشہ تمام چیلنجوں اور آزمائشوں میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں۔
تہران اور اسلام آباد، خطے کے دو اہم ممالک
احمد شریف چوہدری نے پاک ایران دوطرفہ تعاون کے بارے میںایران کے وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ اسلام آباد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاک ایران مسلح افواج پیشہ ور افواج ہیں، اور دونوں فوجوں کے درمیان دیرینہ تعلقات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم پڑوسی اور دوست ممالک ہیں اور بہت سے معاملات اور شعبوں میں ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ دونوں ممالک کی سرحدیں امن اور دوستی کی سرحدیں ہیں۔
پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان نے خطے میں دونوں ممالک کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ تہران اور اسلام آباد خطے میں دیرپا امن اور استحکام کے لیے مل کر کام کریں۔
پاکستان: امن کا خواہاں
احمد شریف چوہدری نے پاک ہند کشیدگی کے آغاز اور دونوں ممالک کے درمیان فوجی جھڑپوں کی وجوہات کے بارے میں پاکستان کے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا پاکستانی عوام اور مسلح افواج کےعزم سے واقف ہے۔ ہم کسی قیمت پر اپنی خودمختاری کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے، یہ واضح پیغام ہے کہ ہم اپنی خودمختاری اور سرحد کی خلاف ورزی برداشت نہیں کرتے اور اگر کوئی ایسی جرات کرے تو ہمارا ردعمل فوری اور تباہ کن ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بات یہ کہ پاکستان نے منطقی انداز اور صبر سے کام لیا۔ ہم نے ہی تناؤ پر قابو پایا، لیکن ایک ہی وقت میں متعدد واقعات رونما ہوئے، بھارتی حملے کی رات تک، جب انہوں نے اپنی فضائی حدود سے پاکستان کے اندر ہمارے شہری علاقوں اور مساجد کو نشانہ بنایا، اور جب بھارتی فائرنگ ختم ہوئی تو ہم نے جواب دیا۔
پاکستانی فوج کے ایک ترجمان نے کہا کہ پاکستان کے فوجی آپریشن (آپریشن بنیان المرصوص) میں، ہم نے کسی بھی ہندوستانی سویلین انفراسٹرکچر کو نشانہ نہیں بنایا، بلکہ صرف ان فوجی اہداف اور تنصیبات کو تباہ کیا جہاں سے پاکستان پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس ردعمل سے ہم نے دنیا کو بتایا کہ ہندوستان کی یکطرفہ جارحیت کا مقابلہ کیسے کیا۔
انہوں نے پاک ہندوستان جنگ میں شدت اور ایٹمی تصادم کے امکان کو ایک احمقانہ اور خطرناک اقدام قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستانی امن کے خواہاں ہیں، ہماری عوام نے سڑکوں پر امن کا جشن منایا، اور یہ پاکستان کے نقطہ نظر سے امن کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔ تاہم ہم جنگ کے لیے ہمیشہ تیار ہیں اور بھارت کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا فوری جواب دیں گے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے ہندوستان کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم جنگ کا ڈھول نہیں پیٹ رہے لیکن کسی کو اپنی سرزمین پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہم اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔
پاکستان کا بیانیہ: ہنودستان کے ساتھ کشیدگی سے کیسے نمٹا جائے
ایسی صورتحال میں کہ جب ہندوستان مشترکہ سرحد کی بدانتظامی، پنجاب اور کشمیر میں علیحدگی پسند تحریکوں اور دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھراتا ہے، مخصوصا پہگام واقعے کا الزام بھی اسلام آباد پر دہرتا ہے، پاکستانی مسلح افواج کے ترجمان نے کہا کہ یہ ہندوستان ہے جو پاکستان میں دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے اور اس جھوٹی بات کے پیچھے چھپنا چاہتا ہے کہ ہندوستان دہشت گردی کا شکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے، ہندوستان، صوبہ بلوچستان میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر علیحدگی پسند دہشت گرد تحریکوں کی شکل میں دہشت گرد عناصر کی حمایت کرکے پاکستان میں عدم تحفظ کو ہوا دے رہا ہے۔
احمد شریف چوہدری نے کہا کہ پہلگام واقعے کے سلسلے میں، جامع تحقیقات اور ثبوت فراہم کرنے کے بجائے، ہندوستان نے پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگائے۔ اس حوالے سے پاکستان نے ہندوستانی فریق کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ بین الاقوامی تحقیقات کی پیشکش کی لیکن اس نے مثبت جواب دینے کے بجائے پاکستان پر حملہ کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ہندوستان سے کہا ہے کہ ثبوت اور قابل اعتماد دستاویزات فراہم کریں اور ہم پاکستان میں اس کی پیروی کریں گے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے 2 روز قبل اعلان کیا کہ پہلگام واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ اگر یہ تحقیقات جاری رہیں تو بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت کی اجازت کس نے دی؟
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس جارحیت کا جواب دے کر حساب برابر کردیا اور پھر کشیدگی میں کمی کے لیے ہندوستان کی درخواست کے جواب میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی قائم ہوگئی۔ پاکستانی مسلح افواج اپنے پیشہ ورانہ رویے کے ساتھ جنگ بندی کے لیے پرعزم ہیں مگر دوسری جانب سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی تو ہمارا ردعمل بھرپور ہوگا۔
پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ کہتے ہوئے انٹرویو کا اختتام کیا کہ دونوں ممالک کے فوجی آپریشنز کمانڈروں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کے 3 راونڈ ہوئے ہیں اور دونوں فریق مشترکہ سرحدوں پر کشیدگی کو کم کرنے اور امن قائم کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ