ایران ان اولین ممالک میں شامل ہے جنہوں نے اس سال 2 مئی کو پہلگام کے واقعے کے بعد نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ہونے والی کشیدگی پر تشویش کا اظہار کیا اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ٹیلی فون پر بات چیت کی اور جنوبی ایشیا میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے لیے تہران کے تعاون کی پیشکش کی۔
پاک ہند جنگ بندی کا خیرمقدم کرتے ہوئے، ایران نے ایک بار پھر دونوں پڑوسیوں سے سفارت کاری کے ذریعے معاملات سلجھانے پر زور دیا اور تاکید کی کہ کشیدگی بڑھانا دراصل تیسرے فریق بالخصوص صیہونی حکومت کے مفاد میں ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے صدر ایران مسعود پزشکیان کیساتھ فون کال پر برصغیر میں کشیدگی کو کم کرنے میں مدد کے لیے ایران کی دوستانہ، برادرانہ اور ہمدردانہ کوششوں کو سراہا۔
شہید صر ایران ابراہیم رئیسی کے گزشتہ سال پاکستان کے دورے کے دوران تجارت، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، صحت، ثقافت اور قانونی و عدالتی امور کے شعبوں میں تعاون کی 8 دستاویزات پر دستخط کیے گئے تھے اور توقع ہے کہ اس تمام منصوبوں پر کام آگے بڑھے گا۔
بالخصوص مشترکہ سرحدوں اور سرحدی علاقوں میں سیکیورٹی چیلنجز کے پیش نظر، دونوں ممالک سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔
اس کے علاوہ مشترکہ منصوبے جیسے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ اور دونوں ممالک کے ریلوے نیٹ ورکس کو جوڑنا اقتصادی اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے اسٹریٹجک منصوبوں میں شامل ہے۔
حالیہ پیش رفت اور دو طرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے دونوں ممالک کی کوششوں کے پیش نظر یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ایران اور پاکستان کے تعلقات ہم آہنگی اور ترقی کے نئے مرحلے میں داخل ہوں گے۔ اس تعاون سے نہ صرف دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا بلکہ علاقائی استحکام اور خوشحالی میں بھی اضافہ ہوگآ۔
ایران اور پاکستان بیک وقت اقتصادی تعاون تنظیم (ECO)، اسلامی تعاون تنظیم، شنگھائی تعاون تنظیم، اور D-8 سمیت کثیرالجہتی فورمز میں فعال کردار ادا کرتے ہیں۔ اسلام آباد نے شنگھائی تعاون تنظیم میں تہران کی مستقل رکنیت کی حمایت کی اور ایران برکس میں پاکستان کی شمولیت کا حامی ہے۔
آپ کا تبصرہ