ارنا رپورٹ کے مطابق، "حسین امیر عبداللہیان" نے آج بروز جمعرات کو تنزانیہ میں مقیم ایرانی شہریوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ جوہری معاہدے کی بحالی سے قطع نظر، پابندیوں کو بے اثر کرنے اور ملک کی معیشتی صورتحال کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ، "کیوں سب سے پہلا یہ پالیسی کو نہیں اپنایا گیا ہے"، کی کوششیں جاری ہیں۔ کیونکہ اگر ہم ایسا سمجھیں کہ کچھ دنوں یا ہفتوں تک ہم حتمی معاہدے پر دستخط کریں گے اور سب کچھ بحال ہوجائیں گے تو اس بات کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ ایسی صورتحال میں صرف ملک کیخلاف ثانوی پابندیوں کو اٹھایا جائے گا اور جوہری معاہدے کے فریم ورک کے اندر بنیادی پابندیاں بجائے خود باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی حکومت پابندیوں کو بے اثر کرنے کے مقصد سے پایئدار اقتصادی ترقی کے منصوبے کا سلسلہ جاری رہے گی۔ لیکن ساتھ ہی ہم نے گزشتہ مہینوں کے دوران مذاکرات کے راستے کو طے کرلیا ہے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمیں گزشتہ روز کے دوران، اپنی تحریری تجاویز پر امریکی جواب کو یورپی یونین کے کوارڈینیٹر کے ذریعے موصول ہوا؛ ہم نے گزشتہ مہینوں کے دوران، مذاکرات اور معاہدے کے متن کو تیار کرنے میں بڑی پیشرفت کی اور اپنے حتمی نقطہ نظروں کو امریکہ کا حوالہ کردیا؛ بعض مسائل پر زیادہ تر زور دیا جانا تھا اور یہ کام ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں گزشتہ روز کے دوران، امریکی جواب کا موصول ہوا اور ہم میز پر حتمی متن سمیت گزشتہ روز کے دوران موصول ہوئے پاسخ کا سنجیدگی سے جائزہ لے رہےہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ ہم سیف گارڈ معاہدے کے باقی حل طلب مسائل پر بہت سنجیدہ ہیں اور کسی بـھی قیمت پر آئی اے ای اے کو کسی بھی وقت پر اپنے بے بنیاد الزمات کو دھرانے اور صہیونی ریاست کی ہم آہنگی سے من گھرٹ دعوے کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنی سرخ لیکروں پر ڈٹ کر کھڑے ہوئے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ امریکی فریق اپنے کیے گئے وعدوں پر سنجیدہ ہو۔ اور اگر ہم اپنے جائزوں میں معاہدے کے مطلوبہ مقام پر پہنچ جائیں، تو ہم امید کرتے ہیں کہ ملک کیخلاف ابتدائی پابندیوں کو بے اثر کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ تمام فریقین کو معاہدے کی واپسی اور ایران کیخلاف پابندیوں کی منسوخی کے مذاکرات کے آخری مرحلے تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ اگر ہم اپنے جائزوں میں اسی نتیجے پر پہنچ جائیں کہ ہماری ماہرین کی ٹیم کے جائزے کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے مفادات، رعایتیں اور سرخ لیکروں کا لحاظ کیا جائے گا تو دوسرا قدم، ویانا میں جوہری معاہدے کے اراکین کے وزرائے خارجہ کو اکٹھے کرنے مذاکرات کرنے اور کسی حتمی معاہدے کا حصول کرنے کا ہے اور اس شیڈول کی بنیاد پر جس پر ہمارے ماہرین کے جائزے جاری ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ اگلے مراحل میں داخل ہو سکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک اپنے قومی مفادات کے حصول اور ایرانی سرخ لیکروں کے لحاظ پر اطمینان حاصل نہ کریں تب تک ہماری اس مسئلے میں کوئی عجلت نہیں ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ