22 اگست، 2022، 11:26 AM
Journalist ID: 2393
News ID: 84861922
T T
0 Persons

لیبلز

مجوزہ معاہدے کے مسودے کے جواب دینے میں امریکہ کی تاخیر

تہران، ارنا - امریکہ جو اب تک جوہری معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تہران پر ضروری سیاسی ارادہ نہ رکھنے کا الزام لگاتا تھا، اب ویانا مذاکرات کے مسودے کے متن پر ایران کے جواب سے چند دن گزرنے کے بعد بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

امریکہ جو اب تک جوہری معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تہران پر ضروری سیاسی ارادہ نہ رکھنے کا الزام لگاتا تھا، اب ویانا مذاکرات کے مسودے کے متن پر ایران کے ردعمل سے چند دن گزرنے کے بعد بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے سے گریز کر رہا ہے۔

گزشتہ چند دنوں میں خاص طور پر یورپی یونین کے رابطہ کار کو ایران کے جواب پیش کرنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن پر اندرونی اور بیرونی دباؤ میں شدت آگئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ دباؤ جواب دینے میں وائٹ ہاوس کی تاخیر کی وجہ ہیں اور ان دباؤ کا بنیادی محور ممکنہ جوہری معاہدے میں ایران کو مزید رعایتوں دینے کا دعویٰ اور ان رعایتوں کو کم کرنے یا معاہدے کو ختم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔

ایسے حالات میں ایران نے بھی دعوی کیا ہے کہ کوئی مذاکرات میں ایرانی عوام کے حقوق سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی نے گزشتہ روز عالمی یوم مسجد کے 17 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی بھی نشست اور مذاکرات میں قوم کے حقوق کو نظر انداز نہیں کریں گےاور حکومت طاقت کے ساتھ ملک کی بہتری اور مسائل کے حل کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھے گی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پابندیوں اور دھمکیوں کے باوجود حکومت سنجیدگی سے اپنے کام کو جاری رکھے گی اور یقین اور صلاحیتوں کے صحیح علم کے ساتھ کہتا ہوں کہ ملک کا مستقبل روشن ہے۔ آج جنگ، ارادوں کی جنگ ہے اور ایرانی قوم نے اپنے دشمنوں کو شکست دینے کا ارادہ کیا ہے۔

ایرانی صدر نے کہا کہ ہمیں کچھ ممالک سے اپنے مطالبات کا ایک اہم حصہ ملا ہے اور ہم عوام کی معیشت اور زندگی کو کسی بیرونی طاقت سے نہیں باندھیں گے اور ملک اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے دن رات کوشش کریں گے۔

گزشتہ سال کے دوران ایرانی حکومت کی کارکردگی سے شائع ہونے والے بعض اعداد و شمار سے ایرانی صدر کے بیان کی تصدیق ہوتی جو ایران نے پابندیوں کے باوجود قابل قدر کامیابیاں حاصل کیں ہیں۔

دو روز قبل نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے اقتصادی امور مہدی صفری نے اعلان کیا تھا کہ ایران کی برآمدات میں گزشتہ سال کے دوران 502 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

"یوروسٹیٹ" نیوز سائٹ کے شائع کردہ تازہ ترین اعدادوشمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ رواں سال کی پہلی ششماہی میں ایران اور یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے درمیان تجارت 2 ارب اور 550 ملین یورو تک پہنچ گئی ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے مقابلے میں 34 فیصد اضافہ ہے۔

تاہم ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے آخری دور اور معاہدے کے مسودے کے طور پر ایک متن کے اعلان کے بعد تہران نے ویانا مذاکرات کے اختتام کے ایک ہفتے بعد اپنا جواب کو مذاکراتی فریقوں تک پہنچایا اور اب سب امریکی جواب کے منتظر ہیں۔

امریکی حکومت پر جوہری معاہدے کی بحالی کے مخالفین کے دباو کے فروغ سے متعلق خبر کی اشاعت کے بعد ایک امریکی نیوز سائٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکی حکومت نے اسرائیلی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ جوہری معاہدہ جلد دستیاب نہیں ہوگا۔

گزشتہ دنوں میں اسرائیلی وزیر اعظم لاپیڈ نے جوہری معاہدے کی بحالی کے خلاف گہری مشاورت کی ہے امریکی صدر کو ایک مراسلے بھی لکھتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ویانا مذاکرات کا مسودہ درست نہیں ہے۔ امریکی سرخ لکیروں کے مطابق نہیں ہے!

امریکی حکومت نے گزشتہ چند دنوں میں اسرائیلیوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ تہران کو کوئی نئی رعایت نہیں دی گئی ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلیوں کو یہ یقین دہانی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اسی بنا پر کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت کی قومی سلامتی کے مشیر "ایال ہولاتا" منگل کے روز  اپنے امریکی ہم منصب جیک سالیوان کے ساتھ ملاقات کیلیے واشنگٹن کا دورہ کریں گے۔

امریکہ کی نیوز ویب سائٹ 'ایگزیئس' نے ہفتہ کے روز مقامی وقت کے مطابق اسرائیلی اور امریکی حکام کے حوالے سے دعوی کیا ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں تل ابیب کو یقین دلایا کہ مذاکرات میں مزید رعایتیں نہیں دے گی۔

اس امریکی –صہیونی ویب سائٹ نے ایک امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ دوہفتے قبل کے مقابلے میں جوہری معاہدہ ممکن ہےمزید قریب ہوسکتا ہے لیکن مذاکرات کے نتائج کے بارے میں اب بھی غیر یقینی صورتحال ہے اور اس میں خلاء موجود ہیں۔ لیکن معاہدہ کا امکان بھی ہے۔

اب ایسی صورت حال میں جب مذاکراتی فریقین نے یورپی یونین کے مجوزہ مسودے پر ایران کے ردعمل کو "تعمیری" قرار دیا ہے امریکہ اپنا ردعمل پیش کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔ ایران کے صدر نے کہا ہے کہ وہ اقتصادی مسائل کے حل کو جوہری معاہدے سے نہیں جوڑتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مذاکرات کو طول دینا یا مذاکرات کی تباہی یورپی اور امریکی فریق کے مفاد میں نہیں جنہوں نے توانائی کے اس بحران میں خود کو ایرانی تیل اور گیس سے محروم کیا ہے۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .