پابندیوں کے خاتمے کے لیے ہونے والے مذاکرات امریکہ نے ترک کیے، نجفی

تہران (ارنا) ایرانی وزارت خارجہ میں بین الاقوامی امور کے ذمہ دار رضا نجفی نے کہا کہ 13ویں حکومت نے بھی پابندیاں ہٹانے کے لیے مذاکرات کیے لیکن 2022 کے فسادات کے بعد امریکہ نے مذاکرات ترک کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی اور دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے۔

رضا نجفی، آج بروز پیر"جہادی جدوجہد کے 1020 دن کی نمائش، 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کی کچھ کامیابیاں" کے حوالے سے کہا کہ 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کا ایک حصہ بین الاقوامی تعاون میں اضافے کے عنوان سے تھا، جس کا اہم حصہ بین الاقوامی فورمز خصوصاً اقوام متحدہ میں فعال موجودگی تھی۔

انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اداروں سے ہمارا شکوہ یہ ہے کہ ان کے ایجنڈے آزاد ممالک کے حق میں نہیں ہیں لیکن ہماری پالیسی اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کے اظہار کے لیے ہر بین الاقوامی ادارے میں موجودگی پر مبنی ہے۔

نجفی نے کہا کہ ہمارا اسلامی تعاون تنظیم کے ساتھ بہت زیادہ تعاون تھا اور ہم نے اس مدت میں فلسطینیوں کے حقوق کے حصول کے لیے اس پلیٹ فارم کو نہ صرف استعمال کیا بلکہ بین الاقوامی نظام میں یکطرفہ پن سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر اقدامات بھی کیے۔

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت کے خلاف عالمی عدالت انصاف کا حالیہ فیصلہ ان دیگر مقدمات میں سے ایک ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے بین الاقوامی سطح پر قانونی صلاحیت کا استعمال کیا اور اس کے علاوہ، ہم نے کینیڈا کے خلاف بھی مقدمہ دائر کیا، البتہ ایسے کیس میں یقیناً وقت لگتا ہے۔

نجفی نے واضح کیا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی 15 رپورٹوں نے تصدیق کی ہے کہ ایران نے اپنی ذمہ داریاں پوری کی ہیں اور مسئلہ اس وقت شروع ہوا جب ٹرمپ انتظامیہ غیر قانونی طور پر JCPOA سے دستبردار ہو گئی لیکن ہم نے JCPOA کی دفعات کے مطابق عمل کیا۔

وزارت خارجہ  کے بین الاقوامی امور کے ذمہ دار رضا نجفی نے کہا کہ 13ویں حکومت نے بھی پابندیاں ہٹانے کے لیے مذاکرات کیے لیکن 2022 کے ایرانی فسادات کے بعد امریکہ نے مذاکرات ترک کر دیے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی اور دیکھنا یہ ہے کہ نئی امریکی حکومت کیا پالیسی اختیار کرتی ہے۔

نجفی نے کہا کہ 13ویں حکومت نے یکطرفہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کے بلاک شدہ اثاثوں کی ایک بڑی مقدار استعمال کی ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .