ارنا کے خارجہ پالیسی کے نامہ نگار کے مطابق، ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بقائی نے پیر 2 جون کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ایرانی وزیر خارجہ آج مصر اور کل لبنان کا دورہ کریں گے، انہوں نے گزشتہ ہفتے عمان کا دورہ کیا تھا۔ نائب صدر اول نے تاجکستان کا ایک اہم دورہ کیا اور کئی اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کی دستاویزات پر دستخط بھی کئے، جبکہ پارلیمنٹ کے اسپیکر کا دورا لاطینی امریکہ دو طرفہ تعاون کے لیے ہے۔
ایران کے بارے میں IAEA کی متواتر اور جامع رپورٹ کے کچھ حصوں کی اشاعت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ایجنسی کی رپورٹ متعدد مخصوص یورپی ممالک کے اثر و رسوخ اور دباؤ کے تحت مرتب کی گئی ہے۔ ہم مطمئن نہیں کیونکہ اس طرح مغربی ممالک ایک اہم بین الاقوامی ادارے کی ساکھ اور حیثیت کو داغدار کر رہے ہیں۔
بقائی نے کہا کہ IAEA کے لیے مناسب نہیں کہ وہ ممالک کی پرامن جوہری سرگرمیوں کے نگران کے طور پر اس طرح کے دباؤ کا شکار ہو۔ ہم جانتے ہیں کہ ڈائریکٹر جنرل اور مجموعی طور پر ایجنسی دونوں کو بار بار رپورٹس تیار کرنے کے لیے دباؤ کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور یقیناً یہ عمل ایجنسی کو ان دباؤ کے زیر اثر کسی رکن ریاست کے خلاف مکمل طور پر جانبدارانہ اور سیاسی رپورٹیں تیار کرنے سے نہیں روک پاتا۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایک اصول کے طور پر، ہر متن اور ہر تجویز کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور اس کے مطابق مناسب جواب دیا جانا چاہئے، بقائی نے کہا کہ میں آپ کو وزیر خارجہ کے ٹویٹ کا حوالہ دیتا ہوں، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ہم ایرانی عوام کے حقوق اور مفادات کی بنیاد پر مناسب جواب دیں گے۔ لیکن اس سے قطع نظر، کوئی بھی تجویز جو ریڈیکل اور غیر قابل عمل مطالبات پر مبنی ہو اور جس میں ایرانی عوام کے جائز حقوق اور مفادات کو نظر انداز کیا گیا ہو، یقینی طور پر ہمارے لیے قابل قبول نہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ سب کو توقع تھی کہ پیغامات کا تبادلہ مذاکرات کے پانچ راونڈز میں ہونے والی بات چیت سے مربوط ہو گا، کیونکہ دونوں فریق ایک دوسرے کی ریڈ لائن سے واقف ہیں اور یہ واضح ہے کہ ایران کس منطق اور قانونی بنیادوں پرافزودگی کی ضرورت پر اصرار کرتا ہے۔ نیز، اور جابرانہ پابندیوں کے خاتمے کا خواہاں ہے۔ یہ ایسے مسائل ہیں جنہیں ایگریمنٹ میں شامل کرنا ضروری ہے۔
ایران کے ایٹم بم حاصل کرنے کے مغربی دعوے کے بارے میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اگر آپ ایرانی جوہری مسئلے سے متعلق رپورٹوں کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ 1984 سے صیہونی حکومت کے حکام یہ دعویٰ کرتے آرہے ہیں کہ ایران آئندہ 6 ماہ کے اندر اٹامک بم حاصل کر لے گا۔ اب اس کے بعد تقریباً 40 سال گزر چکے ہیں اور انکا دعوی شرمندہ تعبیر نہیں ہوا کیونکہ ایران کے پرامن ایٹمی پروگرام کو ہتھیار بنانے سے جوڑنا صیہونی حکومت کے لیے خطے میں امریکی خارجہ پالیسی کی بالادستی کو یقینی بنانے کا بہانہ ہے۔
اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ ایران متعلقہ بین الاقوامی اداروں کی نگرانی میں شفاف اقدامات کے لیے تیار ہے، کہا کہ ہمارے لیے جو چیز اہم ہے وہ ان پابندیوں کے حقیقی خاتمے کو یقینی بنانا ہے جو گزشتہ چند دہائیوں سے ایرانی قوم پر عائد کی گئی ہیں۔ یہ بالکل واضح ہے کہ ایرانی قوم پر عائد پابندیاں کس طرح اور کس طریقہ کار سے ہٹائی جائیں گی، ہمیں یہ بھی یقینی بنانا چاہیے کہ ماضی کے تلخ تجربات نہ دہرائے جائیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے انسانی حقوق کونسل میں مسئلہ فلسطین کے مسئلے پر سست ردعمل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں ہم نے دیکھا کہ انسانی حقوق کونسل کے ایجنڈے کا ایک اہم ترین مسئلہ کونسل کا ایجنڈا نمبر 7 ہے، جس پر اس کے تمام متواتر اجلاسوں میں بحث کی جاتی ہے، یعنی مسئلہ فلسطین کا حل۔ یہ ایسے وقت میں ہے جب کہ تباہی اور انسانی بحران کی شدت کے لحاظ سے دنیا کی کسی بھی صورت حال کا غزہ کی موجودہ صورتحال سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ توقع ہے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ادارے مسئلہ فلسطین پر توجہ دینگے ، بقائی نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ انسانی حقوق کونسل کی سطح پر گزشتہ دو سالوں میں غزہ کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ایک بھی خصوصی یا ہنگامی اجلاس منعقد نہیں ہوا۔ اس مسئلے کو اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (UNRWA) کی سرگرمیوں پر پابندی کے ساتھ ساتھ ایسی رپورٹوں کے ساتھ رکھا جانا چاہیے جو یہ بتاتی ہیں کہ مقبوضہ فلسطین میں انسانی حقوق کے اداروں کو درحقیقت بڑے مسائل کا سامنا ہے۔
ایرانی جاسوس کے بارے میں فن لینڈ کے دعوے کے جواب میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ فن لینڈ کا دعویٰ ہمارے لیے بہت عجیب تھا۔ فن لینڈ کے ساتھ ہمیشہ معقول اور منطقی تعلقات رہے ہیں اور انہوں نے اس سے پہلے کبھی بھی ایسے مسائل نہیں اٹھائے۔ بنیادی طور پر اس ملک کی جانب سے اس طرح کے مسائل کو اٹھانا مناسب نہیں تھا۔
بقائی نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ اس اقدام کو یورپی ممالک کی جانب سے ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک مربوط نقطہ نظر کا حصہ سمجھا گیا۔ ہم نے اس معاملے کو پوری نیک نیتی کے ساتھ پرکھا، اور تہران میں فن لینڈ کے سفیر کو باضابطہ طور پر ایران کے احتجاج سے آگاہ کرنے کے لیے طلب کیا گیا اور وضاحت کی درخواست کی گئی۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے JCPOA میں موجود یورپی ممالک کی جانب سے "ٹرگر میکانزم" کو فعال کرنے کے امکان پر ایران کے رد عمل کے بارے میں کہا کہ ہم حالات اور ضروریات کے مطابق ضروری اقدامات کریں گے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مشرق وسطی جمہوریہ ایران کے ایجنڈے کا سنجیدہ اور مستقل حصہ ہے، کہا کہ ایران پہلا ملک تھا جس نے 1970 کی دہائی میں مغربی ایشیا میں بڑے پیمانے پر تباہی کے ہتھیاروں بالخصوص جوہری ہتھیاروں سے پاک زون بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔ مصر بعد میں اس اقدام میں شامل ہوا اور اب ایران اور مصر کو اس منصوبے کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔
بقائی نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے کو آگے بڑھانا ضروری ہے کیونکہ صیہونی حکومت ایٹمی ہتھیاروں سے پاک مغربی ایشیائی خطے کے حصول میں واحد رکاوٹ ہے۔ اس مطالبے پر خطے کے ممالک کی طرف سے مختلف سطحوں پر مسلسل تاکید کی جانی چاہیے اور صیہونی حکومت کے حامیوں سمیت عالمی برادری کو بھی اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
اس سوال کے جواب میں کہ تہران، امریکہ اور صیہونی حکومت کے درمیان ایران کے حوالے سے تنازعات کے بارے میں کیے جانے والے دعووں کو کس حد تک سنجیدگی سے لیتا ہے، وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ تنازعات کے بارے میں یقین کے ساتھ کیا کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی تنازعہ ہے تو اس کا تعلق ایران پر دباؤ ڈالنے کے طریقے کار سے ہے؛ ورنہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں فریق (امریکہ اور اسرائیل) نے اپنے بیانات اور اقدامات سے ایران کے مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔
صیہونی حکومت کی جانب سے غزہ کے عوام کو امداد فراہم کرنے کے دوران قتل عام کے بارے میں وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مقبوضہ فلسطین بالخصوص غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے امریکہ اور دوسرے ممالک جو صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہیں، ان جرائم میں ساتھی اور شراکت دار ہیں۔ اس خاص معاملے میں ہم نے دیکھا کہ UNRWA پر پابندی لگنے کے بعد دوسری ایجنسیاں فلسطینیوں کی مدد کی آڑ میں میدان میں آگئیں اور یہ واضح ہو گیا کہ اس نقل مکانی اور متبادل کے پیچھے منفی منصوبہ تھا۔
آپ کا تبصرہ