ارنا کے مطابق وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے بیروت میں اپنی کتاب " مذاکرات کی طاقت" کے عربی ترجمے پر دستخط کی تقریب میں کہا کہ مسٹر ٹرمپ نے جب وائٹ ہاؤس میں اپنا کام شروع کیا تو پہلے ہی اقدام میں، ایران کے خلاف حد اکثر دباؤ کی پالیسی کی دستاویز جاری کی ۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ اس پالیسی کا مقصد ایران پر اقتصادی دباؤ ممکن حدتک بڑھانا تھا اور اسی پالیسی کے تحت علاقے میں امریکی فوجی اڈوں میں فوجیوں کی تعداد بڑھائی گئی، ایک جنگی بیڑے کا اضافہ کیا گیا، بمبار جںگی طیاروں کی تعداد بڑھادی گئی اور اس طرح اقتصادی دباؤ کے ساتھ ہی فوجی دباؤ اور دھمکیوں کا اضہ بھی کیا گیا۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ اس کے بعد ان حالات میں مسٹر ٹرمپ نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر کے لئے ایک خط لکھا اور مذاکرات کی درخواست کی۔
ظاہر ہے کہ ان حالات میں، برابری کی بنیاد پر حقیقی مذاکرات نہیں ہوسکتے، بلکہ مذاکرات ایک طرح سے سر تسلیم خم کرنے کے مترادف ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ میں نے اپنی کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور کافی طاقت کے بغیر کسی بھی مذاکرات میں موثر شرکت نہيں کی جاسکتی۔ اسی بناپر اسلامی جمہوریہ ایران نے مسٹر ٹرمپ کی براہ راست مذاکرات کی تجویزکو مسترد اور اعلان کیا ہم ان شرائط کے ساتھ جن کا تعین امریکا کرے، مذاکرات نہیں کریں گے بلکہ اپنی شرائط کے ساتھ مذاکرات کریں گے اور ان شرائط میں بالواسطہ مذاکرات شامل تھے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ مذاکرات کرنے والے ملک کو اپنی اندرونی طاقت کی پشت پناہی حاصل ہونی چاہئے، اگر طاقت نہ ہو تو، گفتگو اور باتوں سے مذاکرات میں پیشرفت نہیں ہوتی۔
انھوں نے کہا کہ ممکن ہے کہ کسی ملک کے پاس فوجی طاقت ہو اور دوسرے کے پاس اقتصادی طاقت ہو،کسی کے پاس ابلاغیاتی طاقت ہو، اور کسی کے پاس یہ سبھی طاقتیں ہوں۔ لیکن بغیر طاقت کے مذاکرات ممکن نہیں ہیں۔
ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مثال کے طور پر اگر کوئی ملک کسی قابض کو اپنی سرزمین سے نکال باہر کرنا چاہے تو، اس کے لئے صرف ڈپلومیسی کافی نہیں ہے۔ ڈپلومیسی کو موثر طاقت کی پشت پناہی حاصل ہونا چاہئے تاکہ دشمن کو پیچھے ہٹاسکے۔ صرف گفتگو اور باتوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔
انھوں نے کہا کہ اگر ہمارے پاس ضروری دفاعی طاقت نہ ہوتی اور امریکا ہماری ایٹمی تنصیبات پر آسانی سے بمباری کرسکتا تو، اس کو ہم سے مذاکرات کی ضرورت نہیں تھی۔ یا اگر ہمارے پاس کافی سائنسی دانش نہ ہوتی اور ہم اپنے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانے پر قادر نہ ہوتے تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ امریکا ہم سے مذاکرات کرتا۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ بنابریں، " مذاکرات کی طاقت" سے مراد، وہ طاقت ہے جو مذاکرات کے لئے ضروری ہے۔ البتہ اس کے دیگر معنی بھی ہیں جن میں سے ایک مذاکرات کی توانائی ہے۔ یعنی مذاکرات کرنے والے کے اندر، مذاکرات کا فن، مہارت، زبان اور استعداد ضروری ہے۔ ہماری اس کتاب میں اس مفہوم پر بھی بحث کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ " مذاکرات کی طاقت" کا تیسرا مطلب یہ ہے کہ خود مذاکرات سے بھی طاقت پیدا ہوتی ہے۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ہمیں امریکا کی تحریری تجویز ملی ہے لیکن اس تحریر میں بہت سے ابہامات اور سوالات ہیں۔ اس تجویز میں بہت سے مسائل واضح نہیں کئے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم آئںدہ دنوں میں اپنے اصولی موقف اور ایرانی عوام کے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے، اس کا مناسب جواب دیں گے۔
سید عباس عراقچی نے اسی کے ساتھ واضح کیا کہ ایران کے اندر یورینیئم کی افزودگی ہماری ریڈ لائن ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ سبھی ملکوں نے اس کو تسلیم کرلیا ہے۔ افزودگی ایرانیوں کا قومی وقار اور باعث افتخار ہے۔
انھوں نے کہا کہ یہ ایک سائںسی کارنامہ اورا یسی ترقی ہے جو ایرانی سائنسدانوں نے اپنے علم،دانش اور کاوشوں سے حاصل کی ہے، یہ کوئی درآمداتی چیز نہيں ہے جس سے چشم پوشی کی جاسکے۔
سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایرانی عوام نے اس قومی افتخار کے لئے بہت زیادہ فداکاری کی ہے اور اپنے سائنسدانوں کے اس کارنامے کے لئے بیس برس سے زائد عرصے سے سخت ترین پابندیاں برداشت کی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ایران میں یورینیئم جاری رکھنے کے لئے ہمیں کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے بہت سے ایٹمی سائنسداں بیرونی دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہوگئے۔ ان سائنسدانوں کا خون اسی افزودگی کی صنعت کی وجہ سے بہایا گیا ہے۔
وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا کہ ایران میں اس وقت دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کے لئے ان دواؤں کی ضرورت ہے جو تہران کے تحقیقاتی ایٹمی ری ایکٹر میں تیار ہوتی ہیں۔ بنابریں افزودگی ایران کی ضرورت ہے اور ہم اس کو جاری رکھیں گے۔
آپ کا تبصرہ