یورپی یونین نے پیر کے روز اپنے جاری کردہ ایک بیان میں انسانی حقوق کے مسائل کے بہانے میں وزرائے خارجہ کی کونسل میں ایران کے خلاف منظور ہونے والی نئی پابندیوں کی تفصیلات کو بتایا۔
یورپی یونین کی ویب سائٹ کے مطابق گیارہ ایرانی شخصیات، چار ادارے بشمول اخلاقی سلامتی پولیس، ایرانی پولیس فورس اور اس کے متعدد منتظمین پابندیوں کی نئی فہرست میں شامل ہیں۔ اس فہرست میں ایرانی وزیر مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی عیسیٰ زارع پور کا نام بھی انٹرنیٹ کو بند کرنے کی وجہ سے شامل ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق، ان افراد اور اداروں کے اثاثوں کو بلاک کر دیا گیا ہے اور یہ افراد یورپی یونین کا دورہ نہیں کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، یورپی یونین کے شہریوں اور کمپنیوں کو ان کے لیے فنڈز فراہم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اس طرح انسانی حقوق کے مسائل کے بہانے ایران کے خلاف یورپی یونین کی عائد شدہ پابندیوں کی فہرست کی تعداد بڑھ کر 97 افراد اور 8 اداروں تک پہنچ گئی۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اہلکار جوزپ بورل جنہوں نے دیگر یورپی حکام کی طرح ایران کے خلاف ظالمانہ اور انسانی حقوق مخالف پابندیوں کے سامنے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ''یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس میں ایران پر پابندیوں کے پیکج کی متفقہ طور پر منظوری دی گئی۔ " یورپی یونین ہمیشہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف عملی اقدام اٹھائے گی۔''
انہوں نے آج بروز پیر وزرائے خارجہ کے اجلاس کے اختتام پر صحافیوں کے ساتھ انٹرویو میں یورپی یونین ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت پسندانہ بیانات اور بدامنی اور فسادات کی حمایت کے تسلسل میں کہا کہ ہم ایران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ایران نے مغرب کے مداخلت پسندانہ رویے کے نتائج سے خبردار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس طرح کے اقدامات کا جواب دیا جائے گا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی بھی کچھ گھنٹے پہلے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یورپی فریقین جاں لیں کہ ایران کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ ملک جو طاقتور اور ذمہ دار ہے، ایک ایسا ملک جو دوسرے فریق کی جانب سے منطقی رویہ اپنانے کی صورت میں خطے میں امن اور استحکام کے لیے سب سے اہم پارٹنر ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم انہیں مداخلت پسندانہ رویے سے بچنے کی دعوت دیتے ہیں، لیکن مداخلت پسندانہ رویے کی صورت میں ایران باہمی اور متناسب ردعمل کا مظاہرہ کرے گا اور اس کا اطلاق تمام یورپی ممالک پر ہوتا ہے۔"
کنعانی نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ "جورف بورل" کے حالیہ بیانات سے متعلق کہا کہ اس موضوع پر بہت سارے ردعمل سامنے آئے ہیں اور حتی کہ یورپ میں بھی ان کے بیانات بہت سے لوگوں کیلئے حیراان کن تھے۔
انہوں نے ایران کے حالیہ اندرونی معاملات سے متعلق فرانسیسی صدر اور اس ملک کے عہدیداروں کے برتاؤ اور موقف کے و نیز فرانس میں لیبر پارٹی کے احتجاجات اور اندرونی معاملات سے متعلق اپنائے گئے موقف سے متعلق سوال کے جواب میں کہا ہم نے پہلے بھی یورپی ممالک کے بہت سے عہدیداروں کیجانب سے دہشتگردوں کو اچھے اور بُرے دہشتگردوں میں بانٹے کا مشاہدہ کیا ہے۔ لیکن آج ہم مغرب کے سیاسی ادب میں ایک نئی تقسیم کا سامنا کر رہے ہیں اور وہ یہ ہے کہ وہ فسادات کو اچھے اور بُرے فسادات میں تقسیم کرتے ہیں۔
ایرانی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ان کی رائے میں اگر ایران میں فسادات ہوجائیں تو وہ اچھی ہیں اور ان کیخلاف مقابلہ نہیں کرنا ہوگا لیکن اگر یہ یورپ میں ہوں وہ بُری ہیں اور ان کیخلاف مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور فرانس کے حکام اور عہدیداوں کا حق ہے کہ وہ حتی کہ لیبر پارٹی کے احتجاج کو شدت سے ختم کریں۔ تو اب یہاں جو لوگ تبدیلیوں کی پیروی کرتے ہیں اور مغرب کے دوہرے رویے اپنانے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، وہ اس حوالے سے جج کر سکتے ہیں کہ صحیح اور غلط کیا ہے۔
کنعانی نے ایران سے متعلق فرانسیسی حکام اور عہدیداروں کے علاوہ امریکی عہدیداروں کے حالیہ موقف کے ردعمل میں کہا کہ ایرانی حکومت ایک ذمہ دار حکومت ہے اور اس نے عملی طور پر اس بات کا ثابت کردیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کا احترام کرتی ہے۔ وہ چار سالہ حکومتوں میں عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر کام پر آتی ہے اور شہریوں کی حفاظت پر توجہ دیتی ہے۔
ایرانی محکمہ خارجہ نے دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے والے ممالک کو عقل مند رویہ اپنانے کی دعوت دی۔
ہمارے ملک کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے بھی جمعہ کے روز جوزپ بورل کے ساتھ فون پر گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے پاس ایک مضبوط عوامی حمایت اور ایک موثر جمہوریت ہےاسی لیے ایران رنگین بغاوت کی سرزمین نہیں ہے۔ ایران خطے میں استحکام اور سلامتی کا لنگر ہے۔
آپ کا تبصرہ