ان خیالات کا اظہار "محمد باقر قالیباف" نے آج صبح کو (جمعرات 28 اپریل) عالمی یوم القئس کے موقع پر حماس کے سینئر رکن "خلیل الحیہ" سے ایک ملاقات کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
القدس؛ اسلام کے جسم کا ایک اہم حصہ ہے
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین اور القدس شریف کا مسئلہ اسلامی ایران میں بہت گہرا ہے۔ ہمارے پاس شہید "مطہری" اور عسکری علما جیسی شخصیات تھیں جنہوں نے بدنام زمانہ پہلوی حکومت کے ظلم و جبر اور انقلاب اسلامی کی فتح سے چند برس قبل فلسطین، فلسطینی اقدار اور قدس کے تئیں تمام مسلمانوں کے فرض کی حمایت کرتے ہوئے اس حوالے سے بہت سی تقریریں کیں۔
قالیباف نے کہا کہ بانی اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) نے قدس کو اسلام کا حصہ اور مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام کا پہلا مسئلہ قرار دیا اور ہوشیاری سے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں یوم قدس کے طور پر ایک دن کا تعین کیا۔ قدس اور فلسطین دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام آزادی پسندوں کے درمیان زندہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطین اور قدس کی حمایت کو اپنی ترجیحات میں سمجھتا ہے اور الہی روایات ہمیشہ مستحکم ہیں اور مزاحمتی جنگجوؤں کی بہادرانہ کارروائی جو حال ہی میں تل ابیب میں سیکورٹی کی کئی پرتوں کے ذریعے تشکیل دی گئی ہے، نے صہیونی ریاست کے لیے حیرت اور دہشت کا باعث بنا، جو الہی فتح کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مزاحمتی فرنٹ کو صہیونی ریاست تعلقات مو معمول پر لانے کی روک تھام پر لاگت میں اضافہ کرنا ہوگا
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے صہیونی ریاست کے اقدامات اور خطے کی بعض حکومتوں کی جانب سے اس ریاست کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی روک تھام اور عالمی سامراجی اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ امت اسلامیہ، مزاحمتی گروہوں اور عالم اسلام کو صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی رک تھام پر لاگت میں اضافہ کرنا ہوگا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسئلہ فلسطین میں ہماری پہلی ترجیح جہاد، مجاہدین، مزاحمت اور جدوجہد ہے اور جدوجہد کے بعد بین الاقوامی قانون کے مسائل اور سیاسی و ثقافتی کام کو آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ اگر ہم صہیونیوں کے خلاف کھڑے نہیں ہو سکتے اور جدوجہد کے ذریعے مضبوط نہیں بن سکتے تو قانونی اور سیاسی مسائل میں ترقی نہیں کر سکیں گے۔
ہم نے صہیونی ریاست کے منصوبے کو مسجد الاقصی میں عملی جامہ پہنانے کی اجازت نہیں دی
در این اثنا اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سینیئر رکن خلیل الحیہ نے کہا کہ ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس سال مغربی کنارے اور 1948ء میں فلسطینی عوام کی بیداری کے ساتھ دشمن کی کوششوں کے باوجود، ہم نے صہیونی ریاست کے منصوبے کو مسجدالاقصی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وہ مسجد الاقصی کو مرکزی باشندوں سے خالی کرانے اور صہیونی قابضین کی جگہ لینے اور مسجد الاقصی میں اپنی موجودگی بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا ہے۔
الحیہ نے کہا کہ مسلم اور یہودی چھٹیوں کے بیک وقت ہونے کے پیش نظر صہیونی ریاست اس تعلقات میں ایک نئی صورت حال مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے، لیکن عوام اور حرم کے محافظوں اور مزاحمتی گروہوں کی مدد سے ہم نے قدس اور مسجد لاقصی مزاحمت کی علامت اور محور کے طور پر رکھنے کی کوشش کی۔
انہوں نے دشمن کی پسپائی اور فلسطینی اتھارٹی میں عدم استحکام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور لبنان میں حزب اللہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ کھڑے ہو کر بھاری قیمت ادا کی ہے اور ہم ہمیشہ ایرانی عوام اور حکومت کی حمایت کے شکر گزار ہیں۔
اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے سینئر رکن نے عظیم شہید سردار سلیمانی کی بہادری کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اس بہادری کے نتیجے میں مزاحمتی گروہوں کے حالات میں بہتری آئی ہے اور جیسا کہ یروشلم میں قابض حکومت تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے ویسا ہی فلسطینی عوام اور مزاحمت کا محور یکجہتی میں مزید مضبوط ہو گیا ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ