یوم القدس فلسطین کی حمایت میں مذاہب کے اتحاد کی علامت ہے: برطانوی پروفیسر

لندن، ارنا- برطانوی یونیورسٹی کے پروفیسر نے یوم القدس کو فلسطینی ارمان کی حمایت اور صہیونی ریاست کے جرائم اور غیر قانونی اقدامات کی مخالفت میں ابراہیمی مذاہب کے اتحاد کی علامت قرار دیا۔

SOAS  یونیورسٹی کے پروفیسر اور مرکز برائے فلسطین اسٹڈیز کے رکن "ہایم برشیث" نے بدھ کو ارنا رپورٹر سے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یوم القدس کا سالانہ مارچ اہم ہے کیونکہ یہ یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو اکٹھا کرکے فلسطینی عوام کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کرتا ہے، جن پر سامراج اور نسل پرست صہیونی ریاست کا قبضہ ہے۔

انہوں نے لندن میں عالمی یوم القدس مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہا کہ احتجاجی تحریک کے شرکاء کو امید ہے کہ وہ "اس حکومت سے نجات حاصل کر لیں گے"۔

عالمی یوم القدس مارچ گزشتہ اتوار کو لندن میں کورونا کی وبا کی وجہ سے دو سال کے وقفے کے بعد نکالا گیا جس میں سینکڑوں روزہ دار مسلمانوں، علما، سول سوسائٹی کے کارکنوں، انسانی حقوق اور جنگ مخالف گروپوں کے علاوہ یہودی اور عیسائیوں نے شرکت کی۔

مظاہرین نے لندن کی مرکزی سڑکوں سے ہوتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ اور دفتر خارجہ کے سامنے مارچ کیا اور پھر وزیراعظم کے دفتر کے سامنے جمع ہوئے۔ انہوں نے اسرائیل مخالف نعرے لگائے جن میں مقبوضہ فلسطین میں غاصبانہ قبضے، تشدد اور نسل پرستی کے خاتمے کا مطالبہ کیا گیا۔

ہایم برشیث نے کہا کہ کہ صیہونی فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے 1948 میں دو تہائی فلسطینیوں کو بے دخل کیا اور اب وہ باقی آبادی کو بے گھر کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے "خون کی ہولی شروع کرنے" کو صیہونیوں کے غیر قانونی اہداف کے حصول کا ایک طریقہ قرار دیا اور مسجد الاقصی میں حالیہ واقعات کا حوالہ دیا۔

صیہونی عسکریت پسندوں اور صیہونی آباد کاروں نے رمضان کے مقدس مہینے کے آغاز سے ہی مسجد الاقصی اور فلسطینی نمازیوں پر حملے شروع کر رکھے ہیں جن میں درجنوں فلسطینی زخمی اور شہید ہو چکے ہیں۔

سواس یونیورسٹی کے پروفیسر نے مسجد الاقصی کے حالیہ واقعات کو صہیونی ریاست کے "نفرت انگیز" اقدامات کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ وہ اس "مقدس اور اہم مقام" کو تباہ کرنے اور جانور کی قربانی دے کر اسے یہودی مندر میں تبدیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ انتہا پسند یہودیوں کا ماننا ہے کہ "ہیکل" کو بحال کرنے کے لیے، جس کے بارے میں ان کا دعوی ہے کہ حضرت سلیمان نے تعمیر کیا تھا، ایک بھیڑ کو مسجد الاقصی کے صحن میں لے جا کر روحانی تیاری کی علامت کے طور پر قربان کیا جانا چاہیے۔ اور اس کا خون مسجد کے فرش پر بہایا جانا چاہیے۔

ابھی تک فلسطینی مسلمانوں کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے لیکن صہیونی تحریک نے ایسا کرنے والے کے لیے 3,100 ڈالر کا انعام مقرر کیا ہے۔

ہایم برشیث نے صہیونیوں کے انتہا پسندانہ عقائد کو نفرت انگیز، غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیا جو صرف خطے میں تنازعات کو جنم دینے کا باعث بنتے ہیں۔

انہوں نے عالمی برادری سے صیہونی حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرنے کا مطالبہ کیا اور خبردار کیا کہ صیہونیوں کے اقدامات سے تنازعات میں شدت آئے گی اور خطے کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں گے۔

واضح رہے کہ گزشتہ اتوار کی ریلی کے دوران اسرائیل مخالف تحریک "ناتوری کارتا" کے آرتھوڈوکس یہودی ربیوں نے بھی صیہونی حکومت کے جرائم سے اپنی بے گناہی کا اعلان کیا، مظاہرین سے ملاقات کی اور "اسرائیل" کی مکمل تباہی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہودیت صیہونیت سے الگ ہے اور فلسطین میں جرائم کے خلاف ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .