ہم ایران اور امت مسلمہ کی سربلندی کے خواہاں ہیں، صدر پزشکیان

تہران (ارنا) صدر ایران نے عمان کے ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک نئے عالمی نظام میں موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔

مسعود پزشکیان نے عمان کے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی ممالک وافر سرمایہ، بے مثال افرادی قوت، بھرپور ثقافت اور دیرینہ تہذیب کے مالک ہیں۔

صدر ایران نے کہا کہ اسلامی ممالک ہر شعبے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ہمیں دوسروں کو ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دینا چاہیے کہ وہ ہمارے لیے فیصلہ سازی کریں۔ ہم عالمی سطح پر موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

-تمام اسلامی ممالک مل بیٹھ کر خدا اور پیغمبر اسلام (ص) کے حکم کے مطابق عمل کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید کی مختلف آیات میں فرمایا گیا ہے کہ مومن آپس میں بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں میں صلح قائم کرو۔نیز فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام (ص) نے فتح کے اگلے دن لوگوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا کہ مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کو قبول کر لیں اور اس پر عمل کریں تو ہم اسلامی بھائی چارے کی بنیاد پر خطے میں امن و سلامتی قائم کر سکتے ہیں۔

- ہم مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں لیکن ہمارے دشمن استعماری اور استحصالی مختلف زبانیں، مختلف حربے اور ثقافتی اور سیاسی تقسیم کے ذریعے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مقصد خطے کے وسائل اور سرمائے کو لوٹنا ہے اور بدلے میں ہمیں ہتھیار، بم اور میزائل بیچنا ہے تاکہ ہم آپس میں لڑیں۔ وہ ہمارے وسائل چھین رہے ہیں اور ہماری سرزمینیں تباہ کر رہے ہیں۔

-ہم اس صورتحال کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ ہم اسلامی ممالک کے ساتھ امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا میں خطے میں پائیدار امن قائم کر سکتے ہیں اور اسلامی ممالک کے درمیان معیشت، صنعت، سائنس اور ثقافت کو وسعت دے سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے بشرطیکہ اسلامی ممالک کے قائدین مل بیٹھیں، گفتگو کریں اور کسی کو بھی مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق میں خلل نہ ڈالیں۔ کیونکہ یہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف ہے۔

- بین الاقوامی قانون کے مطابق، ہر ملک کو پرامن مقاصد کے لیے یورینیم کی افزودگی اور جوہری شعبے میں سائنسی اور تحقیقی سرگرمیوں کا حق حاصل ہے۔ اگر امریکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران جوہری ہتھیاروں کا خواہاں نہیں ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ یہ یقین دہانی ہمارے عقیدے کا حصہ ہے ۔ ہمارے سپریم لیڈر  کے واضح فتویٰ کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران نے کبھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کبھی کرے گا۔

- اسلامی جمہوریہ ایران کے دفاعی حکمت عملی میں جوہری ہتھیاروں کی کوئی جگہ نہیں۔ اگر دوسرے ممالک اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ہم جوہری ہتھیار نہیں بنا رہے تو ہم خطے اور دنیا کے سامنے اس مسئلے کو واضح کرنے کی غرض سے ہر طرح سے تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔

- ہم صحت، زراعت اور صنعت جیسے شعبوں میں استعمال کی غرض سے یورینیئم کی افزودگی سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گے، کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق یہ ہمارا حق ہے۔

- کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ ہمیں ڈکٹیٹ کرے کہ ہم یورینیئم افزودہ کریں یا نہیں۔ سائنس کا تعلق پوری دنیا سے ہے اور ہر ملک کو علم، ٹیکنالوجی اور سائنسی صلاحیتوں سے مستفید ہونے کا حق ہے۔ کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ اس لیے ہم کسی بھی طرح افزودگی کو روکنے کے لیے دباؤ میں نہیں آئیں گے۔

- اسرائیل اور انسانی حقوق کے دعویداروں نے ہمارے سائنسدانوں کو قتل کیا۔ جو لوگ خود بمباری کرتے ہیں اور خطے( فلسطین) میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور شہریوں کو قتل  کر رہے ہیں، وہ ہم پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہیں۔ جو لوگ حقیقی معنوں میں خطے میں عدم تحفظ کا باعث ہیں انہیں ہمیں خطرہ سمجھنے کا کیا حق ہے؟

- ہم  ایران اور امت مسلمہ کی سربلندی کے خواں ہاں ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ چاہے وہ اسلامی ممالک کے ساتھ ہوں یا دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ۔ لیکن ہم  ظلم اور جبر کے آگے سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔ یہ ہمارا عقیدہ ہے؛ پیغمبر خدا نے ہمیں یہ سکھایا، کتاب خدا نے اس کی ہدایت کی ہے۔ عزت کے ساتھ زندگی گزارنا مسلمانوں کے لئے ایک فرض ہے جسے ہم نے سیکھا ہے اور اس پر زندگی گزاری ہے۔

- اسلامی ممالک کو مل کر غزہ اور لبنان کے مظلوم عوام کی  آواز دنیا کے سامنے اٹھانا چاہیے۔

- ہم اسلامی ممالک کے ساتھ بھائی چارے، امن اور تعاون پر صدق دل سے یقین رکھتے ہیں۔ ہم تمام پڑوسی ممالک کو اپنا بھائی اور دوست سمجھتے ہیں۔

- ہم دنیا کے ہراس ملک کا احترام کرتے ہیں جو ہماری عزت کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے دیگر ممالک  کے درمیان منصفانہ  اور مشترکہ مفادات پر مبنی تعلقات اور تعاون میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ جب خطے کے ممالک اور اسی طرح روس اور چین بھی ہمارے ساتھ مثبت روابط رکھتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ ہمارے ان کے ساتھ بھی زیادہ تعمیری تعلقات ہوں گے۔ صیہونی حکومت کے علاوہ اگر دوسرے ممالک ہمارے ساتھ  باہمی احترام  اور  دانشمندانہ چیت کرنا چاہتے ہیں تو ہم ان کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔

ہماری کسی ملک سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ یہ خیال ترک کر دیں کہ وہ ایران یا دیگر اسلامی ممالک پر اپنے غیر منطقی اور غیر قانونی مطالبات مسلط کر سکتے ہیں۔ یہ بات نا قابل قبول ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .