30 جولائی بروز منگل، مسعود پزشکیان نے حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیہ سے ملاقات کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ فلسطین کی آزادی کا ہدف صرف اسلامی انقلاب کے بعد ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی ایرانی عوام فلسطین کی آزادی کے لیے آرزومند تھی۔
نئے ایرانی صدر نے کہا کہ ایرانی عوام نے ہمیشہ صیہونی حکومت کے جرائم اور جارحیت سے نفرت کی ہے، مظلوم فلسطینی عوام کے حقوق کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی مزید طاقت کے ساتھ اس حمایت کو جاری رکھیں گے۔
صدر مملکت نے کہا کہ صیہونیوں کی بربریت، جو وہ غزہ میں کرتے ہیں، بلا تفریق مذہب، تمام آزاد لوگوں کو تکلیف دیتی ہے اور ان گھناؤنے جرائم کے خلاف فلسطینی عوام اور مجاہدین کی شدید مزاحمت باعث فخر ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ مزاحمت غزہ کی عوام کی حتمی فتح، فلسطینی سرزمین کی آزادی اور صیہونی حکومت کی تباہی پر منتنج ہوگی۔
اس ملاقات میں اسماعیل ھنیہ نے ایرانی عوام کا اعتماد حاصل کرنے پر مسعود پرشکیان کو مبارکباد پیش کی اور فلسطینی قوم کے حقوق کی حمایت میں ان کے موقف کو فلسطینی عوام کے لیے حوصلہ افزائی اور فخر کا باعث قرار دیا۔
انہوں نے فلسطین اور غزہ کے بارے میں کہا کہ آج فلسطینی مزاحمت طاغوت کے نظام کے خلاف فرنٹ لائن میں کھڑی ہے اس لیے دشمن اس فرنٹ لائن کو توڑنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں سے خطے پر حکمرانی کر سکے۔ مزاحمت کو توڑنے کی صیہونی کاوش سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مزاحمت کی حمایت میں اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت عملی اور خطے میں استکبار اور ان کے نمائندوں یعنی صیہونی حکومت کے اثر و رسوخ سے نمٹنا کتنا ضروری ہے .
حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ نے الاقصی طوفان آپریشن کے نتائج میں سے ایک کو صیہونی حکومت کے زوال کے یقینی ہونے کو قرار دیا اور کہا کہ آپریشن صادق کے دوران 20 سے زائد ممالک نے صیہونی حکومت کی حمایت کی کوشش کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی ایک اسٹریٹجک بحران سے دوچار ہیں اور مزاحمت کے لیے امت اسلامیہ کی حمایت کے تسلسل اور مضبوطی نے صیہونی حکومت کے ستونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ