ارنا رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کے کمیشن برائے خواتین کی حیثیت کو ایرانی طلباء کے بڑے اتحاد کے خط میں کہا گیا ہے کہ بڑی افسوس کی بات ہے کہ یہ کئی مرتبہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اقوام متحدہ سے وابستہ ایک اسٹریٹجک کمیشن بعض مخصوص حکومتوں کے زیر اثر سیاسی رویہ اختیار کر رہا ہے۔
ایرانی طلباء کے بڑے اتحاد نے اس بات پر زور دیا کہ کیا صبرا اور شتیلا میں فلسطینی خواتین اور بچوں کا قتل، 21 سالہ خاتون امدادی کارکن "رزان اشرف النجار" کو براہ راست گولی مار کر قتل کرنا، صحافی شیریں ابو عقلہ کا قتل وغیرہ اس کمیشن سے اسرائیلی ریاست کو ہٹانے کی کافی وجوہات نہیں ہیں؟
اس خط کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ایک ایرانی خاتون کی مشتبہ موت جو کہ آج دستاویزات اور شواہد سے ثابت ہو چکی ہے کہ اس میں پولیس کی غلطی کا کوئی کردار نہیں تھا، طویل عرصے سے میڈیا کی سرخی بنی ہوئی ہے؛ لیکن عالمی میڈیا اور اس کمیشن کے معزز ممبران نے واشنگٹن پوسٹ کی اس رپورٹ کے حوالے سے کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا کہ ہر ہفتے ایک خاتون، امریکی پولیس کی براہ راست گولی سے ماری جاتی ہے!؟ کیا پولیس کی براہ راست فائرنگ سے "اشلی بابیت" کی موت اور مظاہرین کو دبانے کے دوران، ایک ہی رات میں کم از کم 1500 افراد ہسپتال میں زیر علاج ہوگئے، عالمی برادری کو تشویش کا اظہار کرنے کا سبب بن سکتا ہے؟ کیا کوئی امریکی پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی خواتین کی تعداد پر سوال اٹھاتا ہے؟
اس خط کے آخر میں کہا گیا ہے کہ ہم، اسلامی جمہوریہ ایران کی ملک بھر کی یونیورسٹیوں کی قومی طلبہ تنظیموں کے نمائندوں کی حیثیت سے آپ کو اعلان کرتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ میں خواتین کی حیثیت کے خلاف میڈیا کی تصویر کشی حقیقت کے منافی ہے اور ایران میں خواتین کے حقوق کا چہرہ میڈیا دہشتگردی کا شکار ہوگیا ہے، لیکن ہم حقیقت کو قربان دینے کی اجازت نہیں دیتے ہیںـ ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ ایران کا سفر کریں اور عوامی اور طلبہ کے اجتماعات میں شرکت کرکے ایرانی معاشرے کی حقیقت کا مشاہدہ کریں۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ