ارنا رپورٹ کے مطابق، برطانوی فنانشل ٹائمز نے آج (پیر کو) ایک امریکی اہلکار کے حوالے سے کہا کہ "ایران کا یہ اقدام ایک سنگین دھچکا ہو سکتا ہے، لیکن اسے جوہری معاہدے کے لیے ایک مہلک دھچکا نہیں سمجھا جا سکتا۔"
اس سے قبل ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافائل گروسی نے دعوی کیا تھا کہ بورڈ آف گورنرز کی مذمتی قرارداد کے خلاف ایران کا انتقامی کارروائی اور اس کے 27 نگرانی والے کیمروں کو بند کرنا امریکہ کی جوہری مذاکرات میں واپسی کے لیے ایک "مہلک دھچکا" ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ایران کے اس اقدام نے جوہری معاہدے کے تحت ایران کے اعلانات کی توثیق کرنے کی آئی اے ای اے کی صلاحیت کو ایک سنگین چیلنج دیا ہے۔
گروسی نے ایران کے فیصلے کے نتیجے میں آئی اے ای اے کی مرئیت میں کمی کا ذکر کرتے ہوئے، دلیل دی کہ اگر جوہری معاہدے کا نفاذ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے، تو آئی اے ای اے دستخط کرنے والے فریقین کو ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق خدمات (تصدیق) فراہم نہیں کر سکے گا، جس سے قیاس آرائیاں شروع ہو جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران کے موجودہ جوہری پروگرام کی صلاحیتوں سے آگاہ ہیں، ہم مستقبل میں درست معلومات فراہم نہیں کر سکیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی اگلے تین سے چار ہفتوں میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کے بارے میں ضروری معلومات فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اس سے ویانا مذاکرات کو ایک مہلک دھچکا لگے گا۔
امریکی اہلکار نے، جس نے فنانشل ٹائمز کی طرف سے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، کہا کہ ایرانی اقدام کوئی "مہلک دھچکا" نہیں ہے کیونکہ "یہ فی الحال قابل واپسی ہے" تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ جتنے زیادہ کیمرے بند کیے جائیں گے، اتنے ہی امریکہ کیلئے جوہری معاہدے کی واپسی ہی مشکل ہوگا۔
فنانشل ٹائمز نے سینئر امریکی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر (وہ جلد ہی کیمرے آن نہیں کرتے ہیں)، تو انہیں (ایران کے جوہری پروگرام پر) معلومات کے خلا کو بند کرنے کے لیے آئی اے ای اے کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جو اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، وہ جوہری معاہدے میں امریکی واپسی کو مشکل بنادیں گے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ