رپورٹ کے مطابق، جج "سلمان پورمرادی" نے عدالتی اجلاس کے آغاز میں کہا کہ عدالت کا موضوع 80 مقدمات کی درخواستوں کا جائزہ لینا ہے جس میں ملک بھر سے 2575 افراد کی شکایات ہیں جن میں مدعا علیہان کے 42 فطری اور قانونی افراد کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کیس میں مدعا علیہ "ٹرمپ"، "پومپیو"، امریکی محکمہ خزانہ اور شہدا سلیمانی، "طارمی"، "شہروز مظفری" اور "پورجعفری" کے قتل میں ملوث افراد ہیں۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سردار شہید سلیمانی کے قتل کو مجرمانہ اور قانونی دو پہلوؤں سے تعاقب کیا جا سکتا ہے۔ یہ برانچ اس مسئلے کو قانونی نقطہ نظر سے نمٹاتی ہے کیونکہ یہ تہران بین الاقوامی تعلقات کی قانونی شاخ ہے اور اس عدالت کو عالمی قانونی دعووں پر عالمی دائرہ اختیار حاصل ہے۔
تہران جنرل کورٹ آف لاء کی برانچ 55 کے سربراہ نے مزید کہا کہ 25 ملین ایرانی سردار حاج قاسم سلیمانی کی شہادت کے تمام متاثرین ہیں، اور تمام ایرانیوں کے پاس موقع ہے کہ وہ تہران کورٹ آف لاء کی برانچ 55 میں درخواست جمع کرائیں۔ جس کے پاس غیر ملکی حکومتوں کے خلاف مقدمات سننے کا عالمی دائرہ اختیار ہے۔
مقدمے کے آغاز میں، متعدد مدعیان کی نمائندگی کرنے والے ایک وکیل "حمید رضا احمدی" نے کہا کہ مغربی ایشیا میں دہشت گرد گروہوں کو کئی سالوں سے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔ داعش ان دہشت گرد گروہوں میں سے ایک تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مغربی ایشیائی خطے پر قبضہ کرنے کے لیے امریکہ کے ہتھیاروں میں سے ایک دہشت گرد گروہ بنانا ہے۔ دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں امریکی حکومت اور سی آئی اے کا کردار بہت اہم ہے۔ امریکی حکومت نے حالیہ برسوں میں القاعدہ دہشت گرد گروپ تشکیل دیا اور امریکی افسران نے دہشت گرد گروہ کو تربیت دے کر اور ساز و سامان بھیج کر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
در این اثنا مدعیان کے ایک اور وکیل "ابوطالب ایاز" نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے قتل میں امریکی دہشت گردی کی کارروائی بین الاقوامی قوانین کے منافی اور بین الاقوامی قانون اور ملکی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی کی اس کارروائی سے موت اور ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے جس میں متاثرین اور لواحقین کے خاندانوں کو مادی، روحانی، اور نفسیاتی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ 2017 میں منظور شدہ انسداد دہشت گردی کی مالی معاونت کے قانون کے آرٹیکل 1 کے نوٹ 3 کے مطابق، اس قانون کی دفعات کو افراد اور قانونی اداروں کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کے فنانس کرنے والے کے خلاف، جرم کے ارتکاب کی جگہ، مجرم کی قومیت اور رہائش سے قطع نظر قانونی چارہ جوئی کے لیے لاگو کیا جائے گا۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ کہ سردار قاسم سلیمانی کو تمام ایران اور دنیا جانتی ہے اور تکفیری گروہوں کے خلاف ان کی مزاحمت نے اس پیارے کمانڈر کی ہمت اور بہادری کو ظاہر کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اس کا کردار بہت نمایاں ہے۔
اس سماعت کے بعد جج پور مرادی نے کہا کہ اگلی سماعت کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھیوں کو 8 جنوری 2020ء کو امریکی دہشتگردانہ حملے میں بغداد ائیرپورٹ میں شہید کیا گیا۔
واضح رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کی اس کارروائی کا براہ راست حکم جاری کیا تھا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ