ان بیانات پر اسرائیلی حکام کا مختلف ردعمل سامنے آیا ہے۔
اسرائیل کے سابق وزیر اعظم لیبررمین نے لکھا: نیتن یاہو نے حتمی اور مکمل فتح کی بات کی، لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ فتح کس فریق کی ہے۔
جنگ بندی = حزب اللہ کے سامنے ہتھیار ڈالنا ۔
صیہونی حکومت کی لیبر پارٹی کے رہنما اور رکن پارلمینٹ میراو میخائلی نے بھی اس بات پر زور دیا کہ نیتن یاہو کے الفاظ بہت ہیں، لیکن آخر کار 101 اسرائیلی قیدی ابھی بھی غزہ میں ہیں اور ایک اچھا معاہدہ ایک وہ ہے جو ان قیدیوں کی واپسی کا باعث بنے۔
میرتس پارٹی کے سابق رہنما زہاوا گیلیون نے بھی کہا کہ نیتن یاہو کہتے ہیں کہ ہم مشرق وسطی کی شکل بدل دیں گے لیکن یہ واقعی کیسے ممکن ہے جب کہل وہ 101 اسرائیلی قیدیوں کو غزہ کی سرنگوں میں تنہا چھوڑ چکے ہیں؟!
نیز صیہونی حکومت میں حزب اختلاف کے رہنما یائیر لاپید نے بھی کہا کہ صیہونی حکومت کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ نیتن یاہو کی وزارت عظمی کے دوران رونما ہوا ہے اور حزب اللہ کے ساتھ معاہدہ اس رسوائی کو کبھی نہیں مٹائے گا۔
صیہونی حکومت کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے بھی حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر کڑی تنقید کی اور اسے "مکمل سفارتی و سیکوریٹی کی ناکامی" قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ حزب اللہ کو اسرائیل پر حملہ کرنے سے نہیں روک سکتا۔
انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کے پاس اب بھی دسیوں ہزار راکٹوں کا ذخیرہ موجود ہے اور وہ ہتھیار تیار کر سکتی ہے اور اپنی صلاحیتوں کی تجدید کر سکتی ہے۔
صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے وزیر بین گویر نے بھی جنگ بندی کو ایک تاریخی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شمالی اسرائیل کے باشندوں کو بحفاظت ان کے گھروں میں لانے کا مقصد پورا نہيں ہوتا۔
عبرانی وب سائٹ واللا کے عسکری تجزیہ کار امیر بوخبوط:
مجھے نہیں معلوم کہ لبنان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے سلسلے میں نیتن یاہو کو "فتح" کی اصطلاح کہاں سے ملی!
چینل 12: لبنان کے ساتھ معاہدے کے بارے میں ایک سروے میں، 69 فیصد اسرائیلی یہ نہيں سمجھتے کہ "اسرائیل" نے حزب اللہ کے ساتھ جنگ جیت لی ہے۔
آپ کا تبصرہ