المیادین نیٹ ورک کے مطابق، ریاض سربراہی اجلاس کے شرکاء نے پیر کو ایک بیان جاری کیا ہے جس میں دارالحکومت بیت المقدس کے ہمراہ 4 جنوری 1967 کی سرحدوں کے اندر ایک آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام سمیت فلسطینیوں کے تمام تر حقوق کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا گيا ہے۔
اس بیان میں متعلقہ بین الاقوامی قراردادوں بالخصوص قرارداد 194 کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق اور پناہ گزینوں کو معاوضے کی ادائیگی پر بھی زور دیا گیا ہے۔
مذکورہ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسئلہ فلسطین ان تمام اقوام کے منصفانہ مسائل کی طرح کا ایک مسئلہ ہے جو غاصبانہ قبضے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرتی ہیں۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ مقبوضہ مشرقی بیت المقدس کو یہودیانے اور اس پر قبضے کو مستحکم کرنے کی غرض سے اسرائیل کا کوئی بھی فیصلہ یا اقدام ناقابل قبول ہے اور اسے مسترد کیا جاتا ہے۔
اس سربراہی اجلاس کے شرکاء نے فلسطین کے ابدی دارالحکومت کے طور پر مشرقی بیت المقدس پر فلسطینی مملکت کی عملداری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ قدس شریف عرب اور اسلامی امت کی سرخ لکیر ہے اور مقبوضہ مشرقی المقدس کے عرب اور اسلامی تشخص کی حمایت نیز قدس میں اسلامی اور عیسائی مقدس مقامات کی حرمت کے دفاع کے لیے بھرپور یکجہتی کی ضرورت ہے۔
اس بیان میں جمہوریہ لبنان کی سلامتی و استحکام، خودمختاری اور اس کے شہریوں کے تحفظ کی مکمل حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے، گزشتہ سربراہی اجلاس کی قراردادوں اور غزہ اور لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت کے مقابلہ پر زور دیا گیا ہے نیز خطے میں کشیدگی میں اضافے کے خطرات کی بابت سخت خبردار کیا گيا ہے جس کا سلسلہ اسرائیلی جارحیت کی شکل میں لبنان تک پھیل گیا ہے۔
ریاض سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں 19 جولائی کو جاری ہونے والے بین الاقوامی عدالت انصاف احکامات پر عمل درآمد پر بھی زور دیا گیا اور اسرائیل کے ہاتھوں ہزاروں فلسطینیوں کی جبری گمشدگی (حراست) کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی ہے۔
بیان میں غزہ میں صیہونی فوج کے بھیانک جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی مذمت کرتے ہوئے لبنان میں فوری جنگ بندی اور قرارداد 1701 پر مکمل عمل درآمد کا مطالبہ کیا گيا ہے۔
عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے بیان میں شام اور ایران کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی پر عالمی برادری اور بین الاقوامی اداروں کی خاموشی کے نتائج کی بابت بھی سخت خبردار کیا گیا ہے۔
ریاض سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں سلامتی کونسل کی جانب سے اقوام متحدہ کے منشور کی شق 7 تحت ایسی لازم الاجرا قرارداد جاری کرنے کی ضرورت پر زور دیا گيا ہے جس میں اسرائیل کو جنگ بندی کا پابند بنایا گيا ہو۔
بیان میں سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ بین الاقوامی اتفاق رائے کے مطابق اعلان کرے کہ مملکت فلسطین اس تنظیم میں مکمل رکنیت کی اہل ہے۔
اس سربراہی اجلاس کے شرکاء نے جنگ بندی معاہدے اور قیدیوں کے تبادلے کے لیے امریکہ کے ساتھ تعاون کی غرض سے مصر اور قطر کی کوششوں کی حمایت پر بھی زور اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ صیہونی حکومت کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرنے مجبور اور عالمی قوانین پر عملدرآمد کے بارے میں اپنائے جانے والے دوہرے معیاروں کی مذمت کرے۔
ریاض سربراہی اجلاس کے اختتامی بیان میں تمام ممالک سے اسرائیل کو ہتھیار اور گولہ بارود کی فراہمی روکنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے اور سلامتی کونسل سے بھی کہا گیا کہ وہ مغربی کنارے میں صیہونی حکومت کے غیر قانونی اور کشیدگی کو ہوا دینے والے اقدامات کو روکنے کے لیے ضروری فیصلے کرے۔
اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کا دوسرا ہنگامی اجلاس پیر کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہوا جس میں 50 سے زائد ممالک کے حکام نے شرکت کی۔
یہ اجلاس ایران کی درخواست پر اور وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی سفارتی کوششوں کے نتیجے میں بلایا گيا ہے۔
آپ کا تبصرہ