برکس کو دنیا کےعوام کی اکثریت کی آواز ہونا چاہئے جو زیادہ منصفانہ اور کثیر جہتی دنیا چاہتے ہیں

نیزنی نووگورود- ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے نگراں وزير خارجہ نے کہا ہے کہ برکس کو دنیا کے عوام کی اکثریت کی آواز بننا چاہئے جو موجودہ ہرج ومرج سے بھری دنیا کے بجائے زیادہ منصفانہ، زیادہ جمہوری اور کثیر جہتی دنیا چاہتے ہیں۔

 ارنا کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کے نگراں وزیر خارجہ علی باقری کنی نے روس کے شہر نیزنی نووگورود میں برکس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب میں غزہ کے عوام پر غاصب صیہونی حکومت کی جنگ کے خطرناک اثرات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، منصفانہ، کثیر جہتی اور ڈیموکریٹک دنیا وجود میں لانے میں برکس کے کردار کی اہمیت پر زور دیا۔  

 انھوں نے اپنے خطاب کے شروع میں، اس بات کا شکریہ ادا کیا کہ آج کا اجلاس ایران کے شہید صدر آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی اور شہید وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کی یاد سے شروع کیا گیا۔

ایران کے نگراں وزیر خارجہ نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ برکس میں توسیع کے بعد یہ تنظیم کا پہلا اجلاس ہے، کہا کہ برکس کی توسیع سے اس تنظیم کی تاثیر اور اہمیت بڑھ گئی ہے اور سیاسی،اقتصادی اور سیکورٹی، تینوں شعبوں میں یہ  تنظیم زیادہ فعال  کردار ادا کرسکتی ہے ۔

انھوں نے کہا کہ آبادی اور معیشت کے لحاظ سے یہ دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے، بنابریں اس کو دنیا کے عوام کی اکثریت کی آواز بننا چاہئے جو  ہرج و مرج سے بھری موجودہ دنیا کی جگہ زیادہ منصفانہ اور زیادہ جمہوری دنیا اور اس میں اپنے لئے مناسب جگہ چاہتے ہیں۔

علی باقری کنی نے کہا کہ برکس تنظیم نئے تعاون اور تیزرفتا پیشرفت کے حامل اقتصادی اتحاد میں تبدیل ہوگئی ہے اور اس نے ثابت کردیا ہے کہ اس کے پاس عالمی حکمرانی کی اصلاح اور بین الاقوامی میدانوں میں زیادہ موثر کردار ادا کرنے کی توانائی پائی جاتی ہے اور اس حوالے سے اس کے پاس کثیر جہتی  منصوبے بھی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ زیادہ ممالک اس تنظیم میں شمولیت کے خواہشمند ہیں۔

انھوں نے کہا کہ برکس کو نو ظہور اور جنوبی ملکوں کی  تنظیم کہا جاتا ہے جبکہ  حقیقت یہ ہے کہ اس کے رکن ممالک کسی بھی طرح نئے نہیں ہیں بلکہ اس کے سبھی اراکین وہ ممالک ہیں جو دیرینہ، قدیمی اور درخشاں تمدن کے مالک ہیں اور انھوں نے عالمی نظام  میں اپنی مناسب جگہ حاصل کرنے اور کرہ زمین کو  سرسبزو شاداب اور سب کے لئے  پرامن وپرسکون  بنانے کا عزم کیا ہے۔  

انھوں نے کہا کہ برکس مشرق سے لے کر مغرب، اور شمال سے لے کر جنوب تک سبھی براعظموں پر مشتمل ایک عظیم ترین اور وسیع ترین عالمی تنظیم ہے اورنو ظہور، جنوب یا مشرق جیسی اصطلاحات اس کے عالمی اہداف کے منافی ہیں۔

 ایران کے نگراں وزیر خارجہ نے برکس کے وزرائے خارجہ کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ موجودہ دنیا میں عالمی ترقی اور امن و سلامتی کو بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے جنہوں نے  بنی نوع انسان کی زندگی کو دشوار اور رنج و الم سے بھردیا ہے۔  

انھوں نے کہا کہ خودسری، تسلط پسندی، قومی پرستی، نسل کشی، پابندیوں، محاصروں اور دیگر خودسرانہ اور غیر قانونی اقدمات نے موجودہ ناکام

عالمی نظام کی جگہ نئے عالمی نظام کی تشکیل اور تقویت کی ضرورت زیادہ اجاگر کردی ہے۔

علی باقری کنی نے کہا کہ برکس عالمی رائے عامہ کے نزدیک تبدیلی اور زیادہ منصفانہ نظام لانے کی کامیاب علامت میں تبدیل ہوچکی ہے۔  

انھوں نے کہا کہ غیر قانونی خودسرانہ اور ظالمانہ  پابندیوں کو ناکام بنانے کے لئے برکس کے رکن ملکوں کے درمیان مالیاتی، تجارتی، اقتصادی نیز سرمایہ کاری، نقل و حمل ، توانائی اور سائنس وٹیکنالوجی کے میدانوں میں ہمہ گیر تعاون کی ضرورت ہے تاکہ دنیا میں زیادہ پائیدار سلامتی قائم کی جاسکے۔

ایران کے ںگراں وزیر خارجہ نےغزہ کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مہینوں سے غزہ میں صیہونی حکومت نے  فلسطینی عوام کی نسل کشی  اور دیگروحشیانہ ترین جرائم کا بازار گرم کررکھا ہے اور دنیا خاموش تماشائی ہے۔

انھوں نے کہا کہ پوری مغربی دنیا میں غاصب صیہونی حکومت کے  خلاف  عوامی سطح پر احتجاجی مظاہروں سے ثابت ہوتا ہے کہ مغربی دنیا کے عوام بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومتیں صیہونی  حکومت کی بے چوں و چرا حمایت کرکے انسانیت کو نابود کررہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ  برکس نے غزہ کے بارے میں اپنے ہنگامی اجلاس سے ثابت کردیا ہے کہ یہ تنظیم علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کو لاحق خطرات کے مقابلے میں موثر کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان دنوں غزہ میں جو کچھ ہورہا ہے اس نے مغرب کے قائم کردہ بین الاقوامی نظام کے غیر منصفانہ اور ظالمانہ ہونے کو ثابت کردیا ہے۔

ایران کے نگران وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مشرق وسطی میں امن وآشتی اور ثبات و استحکام اس وقت تک قائم نہیں ہوسکتا جب تک   کہ  سرزمین فلسطین سے قبضہ ختم نہیں کیا جاتا ۔

انھوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے مشرق وسطی میں قیام امن کے لئے دو تجاوزیر پیش کی ہیں  ایک یہ کہ سرزمین فلسطین میں اس کے سبھی حقیقی ساکنین کی مشارکت سے  چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں یا یہودی،قومی ریفرنڈم کرایا جائے اور دوسری  تجویز یہ ہے کہ مشرق وسطی کو ایٹمی اور اجتماعی قتل عام کے دیگر ہتتھیاروں سے پاک علاقہ بنایا جائے۔  

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .