سید عبد الملک الحوثی نے جمعرات کو اپنی ایک تقریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کے تمام مقاصد ناکام رہے ہيں، کہا کہ ہم غزہ پٹی میں فلسطینی قوم اور مزاحمتی فرنٹ کی غیر معمولی شجاعت کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: اسرائيل اور عربوں کے تصادم کی پوری تاریخ میں عربوں کی کوئي فوج بلکہ عربوں کی مشترکہ فوجوں نے بھی غزہ پٹی کے مجاہدوں کی طرح استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا ۔
سید عبد الملک الحوثی نے مزيد کہا: غزہ پٹی میں ہزاروں صیہونی فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے ہيں اور صیہونی، فلسطینی کاز کو ختم کرنے میں کامیاب نہيں ہوئے۔ اس کے علاوہ، صیہونی کو بھاری جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
انہوں نے کہا: تمام عالمی ادارے غزہ کے واقعات کا مشاہدہ کر رہے ہيں لیکن ان کی طرف سے کوئي قدم نہيں اٹھایا جا رہا ہے۔ غزہ کے بارے میں مسلمانوں سنگین ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور اگر آج مسلمان، فلسطین کی حمایت کرتے تو جنگ کے حالات کچھ اور ہوتے۔
انصار اللہ یمن کے سربراہ نے کہا: امریکہ اور مغرب کے فیصلوں کا مقصد، غزہ میں قتل عام روکنا نہيں ہے اور اس جرم کے جاری رہنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ امریکہ صیہونی حکومت کی حمایت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا: امریکیوں نے جنگ میں شرکت کے لئے اپنے فوجی افسروں کو بھیج کر اور غزہ کے عوام کو بھوکا رکھنے میں اہم رول کے حامل ہيں۔ یمن کے خلاف کشیدگي میں اضافہ، امریکہ کے لئے معاشی طور پر بھاری ثابت ہوگا اور اس سے جنگ کا دائرہ بھی پھیلے گا۔ امریکہ نے بحیرہ یمن کے مسئلے کے خاتمے کے لئے اس راہ حل کو قبول ہی نہيں کیا جس سے غزہ کے لئے بھی اشیائے خورد و نوش کی ترسیل ہوتی۔
انہوں نے کہا: اس جارحیت اور امریکی جرائم کا سد باب نیز فلسطین کی حمایت اسلامی امت کا فریضہ ہے اور یمنی قوم کے موقف کی بنیاد، انسانیت، اخلاقیات، دین اور ایمان ہے۔
انہوں نے بتایا: ہماری کارروائی میں ڈرون کے 200 اور بیلسٹک میزائل سے 50 حملے شامل ہيں اور ہماری کارروائي کے آغاز سے اب تک 4 ہزار 874 بحری جہاز بغیر کسی مسئلے کے بحیرہ عرب سے ہوکر گزرے ہيں اور سب کو معلوم ہے کہ ان میں سے کسی بھی جہاز پر حملہ نہيں کیا گيا لیکن امریکہ کا دعوی ہے کہ سمندری امن کو خطرہ لاحق ہو گيا ہے۔
انہوں نے کہا: ہم غزہ کے عوام کے لئے اشیائے خورد و نوش کی ترسیل کے لئے صرف ان بحری جہازوں کو نشانہ بناتے ہيں جن کا اسرائيل سے تعلق ہوتا ہوتا ہے۔ یمن پر حملہ کرکے امریکہ اور برطانیہ خود پھنس گئے ہیں اور بحری جہازوں پر حملے بھی نہيں روک پائے ہيں۔
آپ کا تبصرہ