ان خیالات کا اظہار "سید عباس عراقچی" نے آج کی رات کو جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس کے اختتام کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ گزشتہ ہفتوں کے دوران، ویانا میں مذاکرات کا دوسرا دور تھا جو چھ دونوں تک جاری رہا۔
عراقچی نے کیے گئے مذاکرات کو انتہائی گہرے قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری کوشش یہ ہے کہ پابندیوں کی منسوخی کیلئے امریکہ کیجانب سے ضروری اقدامات پر مکمل عمل در آمد ہوجائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پابندیوں کی منسوخی کی درستگی کی تصدیق ہونی ہوگی پھر اس کے بعد ایران اپنے وعدوں کو نبھانے سے متعلق اقدامات اٹھائے گا۔
عراقچی نے کہا کہ ان تمام اقدامات پر کام جاری ہے؛ تمام وفود کے ذریعے مختلف مسودات پیش اور ان کا تبادلہ کیا گیا اور ہماری کوشش یہ ہے کہ ایک ہی دستاویز میں امریکہ کے ذمہ داریوں اور ایران کیجانب سے جوہری وعدوں میں واپسی سے متعلق اقدامات، واضح طور پر اعلان کیے جائیں۔
اعلی ایرانی سفارتکار نے کہا کہ دستاویز میں فریقین کے اقدامات کی تصدیق کی وضاحت کی جائے گی؛ یقینا یہ ہمارے لئے بالکل واضح ہے کہ امریکہ کو پہلے اقدامات اٹھانے ہوں گے؛ البتہ مذاکرات بہت مشکل ہیں اور ہم بلاشبہ طویل عرصے تک مذاکرات کرنے سے دور رہتے ہیں جیسا کہ ہم مذاکرات میں عجلت بھی نہیں کرتے ہیں۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے کہا ہے کہ کسی کو وقت ضائع کرنے سے مذاکرات کو تعلل کا شکار کرنے اور اسے طویل بنانے کی اجازت نہیں دیں گے اور عجلت سے بھی کام نہیں کرین گے؛ سب کچھ انتہائی سنجیدگی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس راستے میں بہت سارے مشکلات ہیں؛ عین اقدامات کا تعین کرنے کیلئے سنجیدہ قانونی اور تکنیکی کام کی ضرورت ہے جو کیا جارہا ہے؛ مذاکرات کے نتائج کو تہران کو مسلسل بتایا جاتا ہے؛ واپسی پر مزید تفصیلی رپورٹ فراہم کی جائے گی۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے کہا کہ فیصلے تہران میں کیے جاتے ہیں اور ہم تہران کی ہدایت کے مطابق مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور جہاں تک ایرانی مفادات کی فراہمی ہوجائے اس راستے میں آگے بڑھیں گے۔
انہوں نے جوہری معاہدے کے اگلے اجلاس کی تاریخ سے متعلق کہا کہ ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ وفود آئندہ ہفتے ویانا میں واپس آئیں گے۔
عراقچی نے کہا کہ ایرانی وفد کے اقدامات، تہران میں کیے گئے فیصلوں پر مبنی ہیں اور ان فیصلوں سے طے ہوتا ہے کہ مذاکرات کو جاری رہنا چاہئے یا نہیں اور کس شکل میں اور کس پالیسی کے ساتھ عمل کیا جانا چاہئے؛ جب یہ معاملات تہران میں مرتب اور تیار کیے جائیں گے، تو ہم اپنی نئی ہدایات کے ساتھ مذاکرات میں واپس آجائیں گے۔
مذاکرات کا ماحول سنجیدہ اور پیشہ ورانہ ہے؛ تمام وفود نتائج کو حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کی کوششیں ہیں کہ ایسے انتظامات کیے جائیں جو جوہری معاہدے کی بحالی اور مکمل نفاذ کا باعث بنے ہوں، لیکن مذاکرات کی کامیابی کیلئے محض سنجیدگی کافی نہیں ہے اور دیگر معاملات بھی اہم ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ فریقین کو ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنا ہوگا اور انہیں قریب لانے کی کوشش کرنی ہوگی؛ ہمارے کچھ اصول ہیں جن کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا؛ ہم یقینی طور پر مرحلہ وار عمل کیخلاف ہیں؛ یقینا، مرحلہ وار عمل طویل عرصے سے ترک کردیا گیا ہے اور ہمارے مذاکرات حتمی مرحلے یا آخری اقدام پر مرکوز ہیں اور ہم اس آخری مرحلے کو ڈیزائن کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا باقی ہے کہ تصدیق کے عمل کے بعد امریکہ کس تاریخ اور کیسے جوہری معاہدے کے وعدوں پر واپس آئے گا اور ایران بعد میں اس پر عملدرآمد کرے گا۔
عراقچی نے کہا کہ اس حوالے سے تکنیکی، قانونی اور سیاسی تفصیلات موجود ہیں جن پر ہم کام کر رہے ہیں؛ مذاکرات میں سنجیدگی ہے؛ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ مذاکرات کی فضا مثبت ہے یا منفی، لیکن تعمیری اور پیشہ ورانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی جوہری ادارے کیساتھ ہمارا تعاون جاری ہے؛ یہ وسیع پیمانے پر تعاون ہے جو مختلف حصوں پر مشتمل ہے؛ یہ تعاون معمول کے مطابق ہیں؛ ہم کچھ معاملات پر آئی اے ای اے سے متفق نہیں ہیں؛ ہمارے اور عالمی جوہری ادارے کے مابین ان اختلافات کو حل کرنے کی بات چیت جاری ہے۔
نائب ایرانی وزیر خارجہ برائے سیاسی امور نے اس امید کا اظہار کردیا کہ ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان موجودہ اختلافات کا ایک تعمیری اور غیر سیاسی ماحول میں حل ہوجائیں گے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ