"الکساندر شالنبرگ"جن کا ملک، ایران کیخلاف امریکی پابندیوں کی منسوخی کیلئے ایران اور جوہری معاہدے کے اراکین کے وفود کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، نے ارنا نمائندے سے ایک خصوصی انٹرویو کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے "مذاکرات کےعمل سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ مذاکرات کاروں کا کام جاری ہے اب ایک نازک وقت ہے، اور یہ مذاکرات جوہری معاہدے کو بچانے کا ہمارا آخری موقع ہوسکتا ہے۔
انہوں نے ارنا نمائندے کے تحریر شدہ سوالوں کا جواب دیا ہے جس کا تفصیل آج بروز اتوار کو شائع کیا گیا ہے۔
*** تہران اور ویانا کے درمیان تعاون کے بہت سارے مواقع ہیں
آسٹریا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ آسٹرین کمپنیاں، ہونے والے مذاکرات کا بہت قریب سے تعاقب کر رہی ہی اور آسٹریا کے چیمبرز آف کامرس نے حال ہی میں ایسی میٹنگوں کی میزبانی کی جن کا بہت خیرمقدم کیا گیا کیونکہ باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے تمام سارے شعبوں میں بہت ہی صلاحیت موجود ہیں۔
انہوں نے امریکہ کیجانب سے ایرن کیخلاف امریکی ظالمانہ پابندیوں کے دباؤ کے باوجود، تہران اور ویانا کے درمیان تعمیری تعلقات کا سلسلہ جاری ہے اور بہت ہی مشکل حالات میں باہمی تعلقات کی سطح انتہائی تعمیری اور اچھی ہے۔
آسٹرین وزیر خارجہ نے کہا کہ ویانا کے گرانڈ ہوٹل میں منعقدہ جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے 18 ویں اجلاس کا پہلا دور مشاورت کے تسلسل کے اتفاق سے ختم کیا گیا جس میں پابندیوں کو ختم کرنے اور جوہری توانائی کے شعبے میں تکنیکی مشاورت کیلئے جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کے ممبران کے درمیان دو متوازی اجلاسوں کا انعقاد کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ماہرین کی سطح پر منعقدہ ان اجلاسوں میں پابندیوں کی منسوخی اور ایران جوہری مسائل کے تکنیکی امور پر تبادلہ خیال کیا جاتا ہے اور پھر اجلاسوں کے نتیجے کی رپورٹ کو کمیشن میں پیش کیا جائے گا اور جوہری معاہدے کے مشترکہ کمیشن کا دوسرا دور فریقین کی شرکت سے منعقد ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ کے دوران، روز ویانا میں جوہری معاہدے کے ممبران کے درمیان گہری مشاورت ہوئی اور مشترکہ کمیشن کے اٹھارہویں اجلاس کا چوتھا دور، ایران کیخلاف پابندیوں کو ختم کرنے اور جوہری امور کے میدان میں ماہرین کی فنی بات چیت کے عمل اور نتائج کا جائزہ لینے کے مقصد کے ساتھ انعقاد کیا گیا۔
شالنبرگ نے کہا کہ یہ مذاکرات ایسے وقت ہوئے جب نئی امریکی انتظامیہ نے ایران سے متعلق وائٹ ہاؤس کی سابقہ پالیسی پر تنقید کی تھی اور جوہری معاہدے میں واپس آنے اور ایران پر پابندیاں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ تاہم ، وائٹ ہاؤس نے اس معاہدے سے متعلق اپنی وعدہ خلافی پر توجہ دینے کے بغیر اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ اس معاہدے میں جب واپس آئے گا تب ایران جوہری معاہدے کے مکمل نفاذ پر واپس آئے گا۔
آسٹرین وزیر خارجہ نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ جب وہ زبانی طور پر یا کاغذ پر نہیں بلکہ عملی طور پر تمام پابندیوں کو ہٹا دیتا ہے اور پابندیوں کے ان خاتمے کی ایران کے ذریعہ تصدیق کی جاتی ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر واپس آجائے گا۔
*** سب کو پتہ ہے کہ جوہری معاہدے کو بچانے کیلئے زیادہ ٹائم باقی نہیں رہ گیا ہے
شالنبرگ نے ویانا کے دورے پر آئے ہوئے نائب ایرانی وزیر خارجہ "سید عباس عراقچی"، روس، چین، جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے نمائندوں سمیت آسٹرین دارالحکومت میں تعینات ایران کیلئے امریکی خصوصی نمائندے "رابراٹ مالی" سے ملاقات کی ہے۔
انہوں نے ان ملاقاتوں کے نتیجے سے متعلق کہا ہے کہ مجھے یقین ہے کہ وہ اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے قابل قبول حل نکالنے پر تعمیری کام کر رہے ہیں اوردونوں فریقوں پر بہت دباؤ ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔
*** ایران کیخلاف پابندیوں کی منسوخی ایجنڈے میں شامل ہے
انہوں نے "امریکی حکام بالخصوص رابرٹ مالی کیساتھ آپ کی بات چیت کے پیش نظر، کیا واشنگٹن ڈونلڈ ٹرمپ کے تحت ایران پر یک طرفہ طور پر عائد کی جانے والی پابندیوں سمیت تمام پابندیاں ختم کرنے کے لئے تیار ہے؟" کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ پابندیوں کی فہرست میں شامل دو ماہر گروپس میں سے ایک کے ایجنڈے میں ہے؛ لیکن میں جانتا ہوں کہ مذاکرات کار ایک ایسے حل نکالنے کی سخت کوشش کر رہے ہیں جو دونوں فریقوں کے مفادات کے حامل ہو۔
*** ایک سوال بغیر کسی واضح جواب کے
شالنبرگ نے "کیوں یورپ، جوہری معاہدے کے وعدوں میں واپسی کیلئے پہلا قدم اٹھانے پر ایران سے درخواست کے بجائے امریکہ سے درخواست نہیں کرتی ہے" کے جواب میں صرف کہا کہ ہم، جوہری معاہدے کے مضبوط حامیوں کی حیثیت سے، اس معاہدے سے امریکہ کی علیحدگی پر افسوس کرتے ہیں اور اس معاہدے میں واپسی میں امریکی نئی انتظامیہ کے دلچسبی کا خیر مقدم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران، واشنگٹن یکطرفہ طور پر ایران جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کیا اور ایرانی عوام پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے مقصد سے معاشی دہشت گردی کا استعمال کیا۔
نئے امریکی صدر نے ایران سے متعلق وائٹ ہاؤس کی سابقہ پالیسی پر تنقید کی ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں واپسی کیلئے ایران کو پہلا قدم اٹھانا ہوگا اور انہوں نے جوہری معاہدے سے کس ملک نے وعدہ خلافی کی ہے اور اس سے باہر نکالا ہے، کے بتائے بغیر اس بات کا وعدہ دیا ہے کہ جب ایران جوہری وعدوں پر پورا اترے گا تب واشنگٹن بھی اس معاہدے میں واپس آئے گا۔
لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ جب وہ زبانی طور پر یا کاغذ پر نہیں بلکہ عملی طور پر تمام پابندیوں کو ہٹا دیتا ہے اور پابندیوں کے ان خاتمے کی ایران کے ذریعہ تصدیق کی جاتی ہے تو وہ اپنی ذمہ داریوں پر واپس آجائے گا۔
*** امریکہ پر عدم اعتماد
انہوں نے جوہری معاہدے سے امریکی علیحدگی کے بعد امریکہ پرعدم اعتماد سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ تمام فریقوں کے ذریعہ اعتماد پیدا کرنا ناگزیر ہے اور یہ معاہدے کی پائیدار کامیابی کی ضمانت دیتا ہے اور ویانا میں مذاکرات کرنے والے وفود اس بات کے حصول پر کا کر رہے ہیں۔
*** نطنز جوہری تنصیبات کیخلاف حالیہ دہشتگردانہ کاروائی
انہوں نے اس اقدام سے متعلق تمام فریقین کیجانب سے صبر و مزاحمت کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ کشیدکی میں اضافہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
شالنبرگ نے کہا کہ ویانا مذاکرات پر دباؤ بہت زیادہ ہے، لیکن اس کا تسلسل "حوصلہ افزا" ہے۔
واضح رہے کہ ایرانی جوہری ادارے کے ترجمان "بہروزکمالوندی" نے 11 اپریل کو کہا کہ نطنز کمپلیکس میں واقع یورینیم کو افزودہ کرنے کے پلانٹ کے بجلی سرکٹ کے ایک حصے میں حادثہ پیش آیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ حادثے کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی آلودگی پھیلی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ حادثے کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے تحقیقات شروع کر دی گئی ہے اور اس حوالے مزید تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ