16 اگست، 2020، 7:12 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 83909910
T T
0 Persons
یو اے ای کو صہیونی ریاست سے تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے: جنرل باقری

تہران،ارنا- ایرانی مسلح افواج کے سربراہ نے متحدہ عرب امارات کیجانب سے صہیونی ریاست سے تعلقات استوار کرنے پر نظر ثانی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اگر اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی کو ذرہ برابر بھی خطرہ کا شکار ہوا تو اس کا ذمہ دار متحدہ عرب امارات ہے اور ہم اس بات کا برداشت نہیں کریں گے۔

ان خیالات کا اظہار میجر جنرل "محمد باقری" نے اتوار کے روز گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس مشکل صورتحال میں ہمیں متحدہ عرب امارات اور بچوں کو مارنے والی ناجائز صہیونی ریاست کے درمیان تعلقات کے معاہدے کو سامنے آیا جو انتہائی افسوس کی بات ہے۔

باقری نے مزید کہا کہ متحدہ عرب امارات کیلئے بحثیت ایک مسلم عرب ملک کے مسلمانوں کے پہلے قبلے کیخلاف جارحیت کرنے والوں اور فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے والوں سے سیاسی اور معاشی تعلقات قائم کرنا اور اسے کھلی طور پر اعلان کرنا ناقابل قبول ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے شک اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف متحدہ عرب امارات سے متعلق بدل جائے گا اور ایرانی مسلح اقواج اسے کسی اور نقطہ نظر سے دیکھتی ہیں اور اگر علاقے اور خلیج فارس میں کوئی حادثہ وقوع پذیر ہو یا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی سلامتی کو ذرہ برابر بھی خطرہ کا شکار ہوا تو اس کا ذمہ دار متحدہ عرب امارت ہے اور ہم اس بات کا برداشت نہیں کریں گے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات نے 13 اگست کو ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ابوظبی اور تل ابیب باضابطہ طور پر اپنے تعلقات کو معمول پر لایا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کے روز اپنے اکاؤنٹ پر کی جانے والی ٹویٹ میں لکھا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے؛ یہ امارات اور صہیونی ریاست کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں اعلان پر پہلا اسرائیلی رد عمل تھا۔

واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو مغربی کنارے کو دوسرے مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے سے روکنے کے لئے امن معاہدہ طے پایا تھا لیکن صہیونی وزیر اعظم نے اس منسوخی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف اس منصوبے میں تاخیر ہوئی ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .