"سید محمد علی حسینی" نے ہفتے کے روز ایک ٹوئٹر پیغام میں مزید کہا کہ قابض صہیونی ریاست سے تعلقات کو معمول پر لانے کے فیصلے سے دنیائے اسلام پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ علاقائی معاملات تجارت کے اوزار نہیں ہیں؛ فلسطینیوں نے ان منافقانہ سوداوں اور طرز عمل سے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اس طرح کے خوفناک معاہدے کے ایجنٹ نے اپنی ہی کارروائی سے ظلم و ستم کی آگ میں مزید اضافہ کیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد مزاحمتی فرنٹ کو ختم کرنا اور مسئلہ فلسطین کو ہٹانا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ امریکہ، صہیونی ریاست اور متحدہ عرب امارات نے 13 اگست کو ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ابوظبی اور تل ابیب باضابطہ طور پر اپنے تعلقات کو معمول پر لایا۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جمعرات کے روز اپنے اکاؤنٹ پر کی جانے والی ٹویٹ میں لکھا کہ یہ ایک تاریخی دن ہے؛ یہ امارات اور صہیونی ریاست کے درمیان معمول کے تعلقات استوار کرنے کے حوالے سے معاہدے تک پہنچنے کے بارے میں اعلان پر پہلا اسرائیلی رد عمل تھا۔
واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو مغربی کنارے کو دوسرے مقبوضہ علاقوں میں ضم کرنے سے روکنے کے لئے امن معاہدہ طے پایا تھا لیکن صہیونی وزیر اعظم نے اس منسوخی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف اس منصوبے میں تاخیر ہوئی ہے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ