وزارت خارجہ کے سیاسی اور بین الاقوامی مطالعات کا مرکز آج 18 مئی 2025 سے شروع ہونے والے دو روزہ تہران ڈائیلاگ فورم کی میزبانی کر رہا ہے۔ 53 ممالک کے اعلیٰ حکام، خلیج فارس کے وزراء اور فیصلہ سازوں اور اقوام متحدہ کے نمائندوں سمیت 200 وفود کی موجودگی کے ساتھ، یہ فورم ڈپلومیسی کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
اس فورم کی افتتاحی تقریب میں، جو صدر مسعود پزشکیان کی موجودگی میں منعقد ہو رہی ہے، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اپنی تقریر کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2023 سے غزہ پٹی میں 60 ہزار سے زائد فلسطینی شہید اور بہت سے بچے بے گھر ہو چکے ہیں۔ محاصرہ اور مکمل قحط کے حالات میں یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ دنیا اس جرم کا مناسب اور ذمہ دارانہ جواب دینے میں ناکام رہی اور جو خود کو انسانی ضمیر کا محافظ سمجھتے ہیں انکی بے حسی اور اس تباہی پر قابو پانے میں بین الاقوامی اداروں کی نااہلی واقعی حیران کن ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایسے حالات میں ایران نے اپنی خارجہ پالیسی کو تین بنیادی اصولوں پر مرکوز کیا ہے، پڑوسیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط، جنوب کی ابھرتی ہوئے طاقتوں اور ممالک کے ساتھ تعاون کا فروغ اور مشرق و مغرب میں عالمی طاقتوں اور بلاکوں کے ساتھ تعلقات میں توازن۔ انہوں نے تاکید کی کہ ہماری خارجہ پالیسی توازن اور حقیقت پسندی پر مبنی ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے مطابق مسئلہ فلسطین کے پرامن حل کی تجویز یہ ہے کہ سرزمین کے مستقبل کے سیاسی نظام کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے فلسطینی سرزمین کے تمام حقیقی باشندوں بشمول مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کی شرکت سے ایک قومی ریفرنڈم کا انعقاد کیا جائے۔ یہ جمہوری اور جامع حل، جنوبی افریقہ میں نسل پرستی کے خلاف لڑنے کے کامیاب تجربے سے متاثر ہو کر، کئی دہائیوں پر محیط قبضے، امتیازی سلوک اور ناانصافی کو ختم کر سکتا ہے اور پناہ گزینوں کی واپسی اور پورے فلسطین میں ایک اکائی اور جامع ریاست کے قیام کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ کئی دہائیوں میں پہلی بار، یہ تاریخی موقع ملا ہے کہ علاقائی صورتحال پر بات کرنے میں پہل کرنے کی ذمہ داری بیرونی عناصر کے بجائے خود خطے کے ممالک کے ہاتھ میں دی جائے۔ حق خودارادیت کا دوبارہ دعویٰ اور اپنی اجتماعی مرضی کی بنیاد پر مستقبل کا تعین کرکے، ہماری قومیں ترقی، امن اور تعاون کی نئی راہیں کھول سکتی ہیں۔ ایک ایسا مستقبل جس کی تشکیل غیرعلاقائی طاقتوں کے تھنک ٹینکس میں نہیں، بلکہ علاقائی دارالحکومتوں میں اور مقامی ضروریات، اقدار اور حقائق پر مبنی ہوں۔
آپ کا تبصرہ