پروگرام "ترقی کے علمبردار" کے تسلسل میں، آج بروز بدھ 22 جنوری 2025 کو نجی شعبے کے صنعت کاروں اور ماہرین کے ایک گروپ نے حسینیہ امام خمینی (رح) میں رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات میں پرائیویٹ سیکٹر کے متعدد معاشی ماہرین نے اپنے خیالات اور آراء پیش کیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے "ترقی کے علمبردار" پروگرام کے سلسے میں کل بروز منگل 2 گھنٹے تک "نجی شعبے کی صلاحیتیں اور کامیابیاں" نمائش کا دورہ کیا تھا۔
رہبر انقلاب کے خطاب کے اہم ترین نکات درج ذیل ہیں
- میں نے کل ایسی نمائش میں شرکت کی، جس میں ملکی ترقی کی حقیقت کا ایک چھوٹا سا حصہ دکھایا گیا، اس سے ظاہر ہوا کہ نجی شعبہ بیرونی دباؤ، پابندیوں اور مزید پابندیوں کے خطرے کے باوجود، ترقی کی قابل قبول سطح تک پہنچنے میں کامیاب رہا ہے۔
- ہمیں میڈیا ذرائع میں بہت کام کی ضرورت ہے۔ کیا ہمارے نوجوان اور ہمارے طلباء اس ترقی کے بارے میں جانتے ہیں جو ہم نے اس نمایش میں دیکھیں اور سنیں۔ ہم "ترقی اور خوابوں کی تکمیل" کو بھرپور انداز سے نہیں دکھا پاتے لہذا اس حوالے سے ہمیں میڈیا پر کام کی ضرورت ہے۔
- ایک اہم کام آرٹیکل 44 کی پالیسیوں کو لاگو کرنا ہے جس کا مقصد ملکی پیداوار میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہے۔ ان پالیسیوں پر صحیح طریقے سے عمل نہیں کیا گیا۔ نوے کی دہائی (ایرانی سال) میں ملک کے معاشی زوال کی ایک وجہ یہ مسئلہ بھی ہے۔
- متعدد ماہرین نے ٪8 اقتصادی ترقی حاصل کرنے کے مواقعوں کی نشاندہی کی، سرمایہ کاری کے منصوبوں کی وضاحت کی اور مسائل کو حل کرنے کے مختلف طریقہ کار بتائے۔
- ہم نے یہ اجلاس ان لوگوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے منعقد کیا ہے جنہوں نے پابندیوں اور دھمکیوں کے عروج میں، معاشی میدان میں سخت محنت کی اور ملک کی پیداوار اور ترقی کو اپنی کوششوں سے ممکن بنایا۔ آپ معاشی جنگ کے فرنٹ لائن کمانڈر ہیں۔
- آج کی جنگ معاشی جنگ ہے۔ ہم نے کہا کہ پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے۔ ہر سال جب یہ میٹنگ ہوتی ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ نجی شعبے نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور مضبوط ہوا ہے۔
- پہلے ہمیں پرائیویٹ سیکٹر کو میدان میں لانا تھا اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ پرائیویٹ سیکٹر ان چند سالوں میں اپنے تجربے کے ساتھ پیداوار اور سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے حوصلہ افزائی کا خواہش مند ہے۔ اس بات کا مطلب یہ ہے کہ پچھلے 5 سال میں ہم آگے بڑھے ہیں۔
- ہم نے کہا کہ مزاحمت زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ غزہ جیت گیا، مزاحمت نے ثابت کیا کہ وہ زندہ رہے گی۔ دنیا کی نظروں کے سامنے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک افسانوی کہانی ہے۔
- اگر ہم نے یہ تاریخ میں پڑھا ہوتا تو ہمیں یقین نہیں آتا کہ امریکہ جیسی بڑی جنگی طاقت صیہونی حکومت جیسی خونخوار ظالم حکومت کی مدد کو آئے گی۔ یہ حکومت اتنی ظالم اور جابر ہے کہ ایک سال اور چند مہینوں میں 15 ہزار بچوں کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ امریکہ نے اس حکومت کو بچوں والے گھروں اور ہسپتالوں پر بمباری کے لیے عمارتیں توڑنے والے بم دیے۔
- آج یہ سب ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ امریکہ نے صیہونی حکومت کو اپنی تمام سہولیات فراہم کیں، اگر وہ ایسا نہ کرتا تو صیہونی حکومت پہلے ہی ہفتوں میں ڈھیر ہوجاتی۔ ایک سال اور 3 ماہ کے دوران وہ جتنے ظلم کر سکتے تھے انہوں نے کیے: ہسپتال، مساجد، گرجا گھر، بازار، عمارتیں، اجتماعات کی جگہیں مسمار کردیں، اور یہ تمام جرائم غزہ جیسی زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے میں ہوئے۔ صیہونی حکومت نے کہا تھا کہ ان کا ہدف حماس کو تباہ کرنا ہے۔
- لیکن غاصب صیہونی حکومت کو نہ صرف اسی حماس کے روبرو مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑا جسے وہ تباہ کرنا چاہتی تھی بلکہ جنگ بندی کے حصول کے لیے اس کی شرائط کو بھی تسلیم کرنا پڑا۔ اس کا مطلب ہے کہ مزاحمت زندہ ہے۔ یہ ایک الہی وعدہ ہے، جہاں کہیں مزاحمت ہو وہاں اللہ کے نیک بندوں کی فتح یقینی ہے۔
- صیہونی فریب کار نے اعلان کیا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے۔ مستقبل بتائے گا کہ کون کمزور ہوا ہے۔ صدام نے بھی گمان کیا تھا کہ ایران کمزور ہو گیا ہے اور حملہ کردیا۔ ریگن نے ایران کی کمزوری کا تصور کرتے ہوئے صدام کی حکومت کو اسی طرح کی مدد فراہم کی تھی۔
- وہ اور دیگر درجنوں گمراہ لوگ جہنم واصل ہوگئے مگر اسلامی نظام روز بروز پائیدار ہوتا گیا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں یہ تجربہ اس بار بھی خدا کے فضل سے دہرایا جائے گا۔
آپ کا تبصرہ