پاراچنار جنگ بندی معاہدے کے خلاف سازش پر حکومت پاکستان کی تشویش

اسلام آباد (ارنا) پاراچنار میں امن کے قیام پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کرم کے علاقے میں رہنے والے قبائل کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کے بعد، اس شہر کی طرف جانے والی سڑکوں کو 3 ماہ کے بعد دوبارہ کھول دیا جانا تھا، لیکن پولیس فورسز اور حکومت اہلکاروں کی موجودگی میں امدادی قافلے کی نقل و حرکت کے دوران ایک سیکورٹی حادثہ پیش آیا جس کی وجہ سے پاراچنار کے لوگوں کو امدادی سامان کی ترسیل روک دی گئی ہے۔

ہفتہ کو پاکستانی نیوز چینلز سے IRNA کی رپورٹ کے مطابق، نامعلوم عناصر کی جانب سے سیکورٹی فورسز اور سرکاری اہلکاروں کے قافلے پر فائرنگ کا واقعہ پاراچنار کے پہلے سے ہی ناامن علاقے میں امن و امان کی نا گفتہ بہ حالت کو ظاہر کررہا ہے۔ حالیہ مہینوں میں یہاں خونریز تنازعات کا مشاہدہ کیا گیا ہے، بالخصوص اس علاقے کے اہل تشیع عوام پر تکفیری قوتوں کے دہشت گردانہ حملے ہوتے رہے ہیں۔

دریں اثنا، صدر آصف علی زرداری اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے پاراچنار کے راستے میں ہونے والے آج کے واقعے کی مذمت کی ہے اور پاراچنار میں جنگ بندی کے معاہدے کو توڑنے کے لیے سیکورٹی مخالف تحریکوں اور تخریب کاروں کو خبردار کیا ہے۔

صدر پاکستان نے پاراچنار میں عدم تحفظ کی وجوہات اور پرامن سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے کی کسی بھی کوشش کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیا ہے۔

پاراچنار جنگ بندی معاہدے کے بعد، سرکاری اہلکاروں کے حفاظتی دستوں کی مدد سے امدادی کھیپوں کو پاراچنار شہر پہنچانا تھا مگر، بگن کے قریب شدید فائرنگ کے نتیجے میں ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار اور کئی سیکورٹی فورسز کے اہلکار زخمی ہوگئے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ نے پاراچنار میں امن اور جنگ بندی کی فضا کو تباہ کرنے کے لیے سیکورٹی مخالف عناصر کی مذمت کرتے ہوئے پاراچنار شہر کے قبائل کے درمیان حالیہ معاہدے کے خلاف سازش پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔

خیبرپختونخوا کے وزیراعلی، جنہیں پاراچنار شہر میں سیکورٹی کے قیام کے لیے اس صوبے کا اعلیٰ ترین انتظامی عہدیدار سمجھا جاتا ہے، نے بھی اعلان کیا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کو کبھی ختم نہیں ہونے دیں گے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع پاراچنار کے علاقے میں 2 ماہ سے جاری بدامنی کی شدت اور تکفیری عناصر کے جرائم کے خلاف شیعہ مظاہروں کے تسلسل کے بعد بالآخر حکومت اور سیکورٹی حکام کی موجودگی میں پاراچنار کے 2 اہم قبائل کے درمیان امن اور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہو گئے تھے۔

جمعرات، 22 نومبر 2024 کو ہونے والے دہشت گردی کے واقعے کے بعد پاکستان کے اعلیٰ حکام، سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس مجرمانہ کارروائی میں متعدد کاروں میں سوار افراد کو نشانہ بنایا گیا، جس کے دوران کم از کم 55 افراد شہید ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد کرم کے علاقے میں رہنے والے 2 قبائل کے درمیان خونریز جھڑپیں کئی ہفتوں تک جاری رہیں، جس میں کم از کم 130 افراد جاں بحق ہوئے۔

پاراچنار کے بے دفاع لوگوں کی شہادت کے ردعمل میں پاکستان کی شیعہ جماعتوں نے حکومت اور ریاستی ذمہ داران کی جانب سے اس جرم کے مرتکب افراد کی نشاندہی کرنے کے اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیری طاقتیں ملک میں امن اور رواداری کی فضا کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ .

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .