واشنگٹن پوسٹ کا اعتراف: ایران کے خلاف امریکہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہو گئی ہے!
تہران (ارنا) واشنگٹن پوسٹ کے تجزیہ نگار نے ایران کے بارے میں امریکہ کے موجودہ رویہ پر تنقید کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے بھڑکنے کو روکنے کے لیے تہران کے حوالے سے بہتر حکمت عملی بنائیں۔
CNN ٹیلی ویژن نیٹ ورک کے پروڈیوسر اور واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار فرید زکریا جو ڈیموکریٹس کے قریب ہیں، نے لکھا کہ ایران اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ خطے میں واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے خلاف جارحانہ پالیسی اپنانے کا فائدہ سے زیادہ نقصان ہے اوریہ نئی حقیقت کسی بھی چیز سے زیادہ ایک عنصر کی وجہ سے ہے: تہران کے بارے میں واشنگٹن کی کسی بھی مربوط پالیسی کا خاتمہ۔
اس مضمون کے تسلسل میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں JCPOA سے امریکہ کے انخلاء کے بعد سے، ایران کے بارے میں واشنگٹن کی پالیسی "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی رہی ہے۔ ایران کے خلاف پابندیوں کی تعداد باراک اوباما کے دور میں 370 کیسز سے بڑھ کر ٹرمپ انتظامیہ میں 1500 سے زائد کیسز تک پہنچ گئی، جس سے ایران دنیا میں پابندیوں والے ممالک میں سرفہرست ہے۔ جوہری معاہدے کے دوسرے دستخط کنندگان کی مخالفت کے باوجود، امریکہ نے تہران کے ساتھ مزید کاروبار کرنے سے مؤثر طریقے سے روکنے کے لیے ثانوی پابندیوں کا استعمال کیا۔ بائیڈن انتظامیہ نے بھی بڑے پیمانے پر ٹرمپ کی پالیسی کو کچھ تبدیلیوں اور چھوٹ کے ساتھ جاری رکھا ہے۔
ٹرمپ اور بائیڈن کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کا نتیجہ کیا نکلا ہے؟ JCPOA کی پابندیوں سے قطع نظر، ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو بڑے پیمانے پر آگے بڑھایا ہے۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے مطابق ایران کی افزودہ یورینیم اب جوہری معاہدے سے 30 گنا زیادہ ہے۔
اسی وقت، ایران نے مزاحمتی محور گروپوں کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرکے بیرونی دباؤ کا جواب دیا ہے، حالیہ دہائیوں میں اسرائیل کو اس کی سب سے طویل اور خطرناک ترین جنگ میں ملوث کیا ہے، جس سے بحیرہ احمر سے بحری جہازوں کی آمدورفت میں تقریباً 70 فیصد کمی آئی ہے۔ اور اس نے عراق اور شام کو اپنے اتحادی ممالک بنا لیا ہے۔
آپ کا تبصرہ