جو بھی ملک اسرائيل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا چاہے گا اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی، وزیر خارجہ

تہران-ارنا- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے کہا ہے: سعودی عرب والوں نے ہم سے کہا کہ فلسطین ان کی اولین ترجیح ہے۔ تعلقات قائم کرنے کے سلسلے میں میں یہ کہوں گا کہ اسرائیل کے حالیہ اقدامات ان ملکوں کے لئے حالات پیچیدہ اور سخت ہو گئے جو اسرائيلی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنا کی خواہش رکھتے ہيں۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ نے نیویارک دورے کے موقع پر المانتیور سے ایک گفتگو میں کہا: جنگ کے بعد کا غزہ ایک بے حد اہم موضوع ہے اور ہفتوں سے یہ سوال سب کے ذہنوں میں ہے۔ لیکن میرے خیال سے جنگ کے بعد کے غزہ کے لئے کسی بھی قسم کے فیصلے کا حق فلسطینی رہنماؤں کا ہونا چاہیےاور دوسروں کو ان کے فیصلوں کی حمایت کرنا چاہیے۔ اگر دوسرے فلسطین کے بارے میں فیصلہ کریں گے تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ ہم جب فلسیطینیوں کی بات کرتے ہيں تو اس سے مراد مختلف نظریات والی تمام فلسطینی تنظیمیں ہوتی ہيں۔

وزیر خارجہ نے کہا: آج ہمارے علاقے میں ایک اہم سوال یہ  ہے کہ تعلقات کس کے ساتھ قائم کئے جائيں گے؟ اس حکومت کے ساتھ جس نے 25 ہزار عورتوں، بچوں اور بے گناہوں کق قتل کیا ہے ؟ اس حکومت کے ساتھ جس کی طرف سے نسل کشی کی وجہ سے دنیا بھر میں یہاں تک کہ امریکہ اور یورپ میں بھی اس کے خلاف سڑکوں پر مظاہرے ہو رہے ہيں ؟ ان حالات ميں جو بھی ملک اس حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرے گا اسے اس کی بھاری قیمت چکانی ہوگی۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے اس گفتگو میں کہا: وائٹ ہاوس اور امریکی حکام میں یہ غلط تصور پایا جاتا ہے کہ حوثیوں، حزب اللہ اور حماس کا ریموٹ کنٹرول ہمارے ہاتھوں میں ہے! لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ خود پوری خود مختاری  کے ساتھ فیصلے کرتے ہيں۔ ان سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔ وہ سب عرب اور مسلمان ہيں اور عربوں اور فلسطینی مسلمانوں کے لئے کارروائیاں کر رہے ہيں۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا: ہم نے عراق پر حملہ نہیں کیا بلکہ ہم نے عراقی کردستان میں موساد کے ہیڈکوارٹر کو نشانہ بنایا ہے۔ مرکزي حکومت اور بغداد کے حکام کو اس کا بخوبی اندازہ ہے۔

وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے کہا: آج غزہ اور غرب اردن میں امریکہ نیتن یاہو کے ساتھ جنگ میں بری طرح سے پھنس چکا ہے لیکن اسرائيل کے ہاتھ کچھ نہيں لگا یعنی امریکہ کی وسیع حمایت کے باوجود، حماس کا خاتمہ نہيں ہوا، حماس غیر مسلح نہيں ہوئی اور کوئي بھی قیدی، طاقت کے زور پر رہا نہيں ہوا۔ نیتن یاہو  کے لئے اپنی بقا بھی اہم ہے۔ اگر آج امریکہ جنگ روک دے تو نیتن یاہو دوسرے دن تک بھی جنگ جاری نہيں رکھ سکتے۔ اس لئے نیتن یاہو کی کوشش ہے کہ امریکہ کو دیگر محاذوں پر بھی پھنسا دیں۔ اس لئے ہم امریکیوں کو خبردار کرتے ہيں کہ وہ نیتن یاہو اور صیہونیوں کے کھیل سے ہوشیار رہيں کیونکہ ان کا یہ کھیل، جنگ کا کھیل ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .