یہ بات سید ابراہیم رئیسی جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77 ویں اجلاس کی شرکت کیلیے نیویارک کے دورے پر ہیں ، بدھ کے روز سوئس کے صدر کےساتھ ملاقات کرتےہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ امریکی حکومت پچھلی حکومت کے فیصلوں کی مخالفت اور معاہدے کی طرف واپسی کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ ابھی بھی ہم سابق امریکی حکومت کے رویہ کی تلافی اور ظالمانہ پابندیوں کے خاتمے کیلیے کوئی سنجیدہ اور عملی اقدام نہیں دیکھا ہے۔
ایرانی صدر نے ایران اور سوئس کے درمیان دوستانہ اور اچھے تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کی ترقی اور بینکی اور مالیاتی تعلقات کو آسان بنانے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ جوہری مسئلہ کی وجہ امریکہ کی جانب سے فیصلہ نہ کرنا ہے اور یہ امریکہ تھا جس نے ایران کی جانب سے وعدوں پر پورا کرنے کے باوجود اس معاہدے سے نکلا اور اپنے وعدوں پر عمل نہیں کیا۔
آیت اللہ رئیسی نے کہا کہ ہم نے مذاکرات کی میز نہیں چھوڑی ہے اور ایک اچھے اور منصفانہ معاہدے کے لیے تیار ہیں اور امریکہ کے پس منظر کے باوجود معاہدے کے استحکام کی ضمانت حاصل کرنے کے لیے اسلامی جمہوریہ کا مطالبہ مکمل طور پر معقول مطالبہ ہے۔ 40 سال دباؤ اور پابندیوں کے باوجود ایران نے بہت کامیابیاں حاصل کیں ہیں اس لیے پابندیوں کا حربہ موثر نہیں ہے۔
اس ملاقات میں سوئس کے صدر نے دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تعلقات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ 2016 سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے ایک روڈ میپ تیار کیا گیا جس پر ہم مسلسل عمل پیرا ہیں اور ہمیں یقین ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون سے سیاسی اور جیو پولیٹیکل کی رکاوٹوں کو دور کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایران اور مغربی ایشیا کی سلامتی کو بھی یورپ کی سلامتی کا ضامن قرار دیتے ہوئے مالیاتی اور بینکاری تعاون کے فروغ پر زور دیا۔
ایرانی صدر پیر کی رات ایک اعلی سطحی وفد کی قیادت میں میں اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے نیویارک پہنچ گئے۔
واضح رہے کہ اس دورے کے دوران ایرانی وزیر خارجہ حسین امیرعبد اللہیان، سینیئر مذاکرات کار علی باقری کنی، صدارتی دفتر کے سربراہ غلام حسین اسماعیلی، صدر کے معاون برائے سیاسی امور محمد جمشیدی اور پارلیمنٹ میں قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کمیشن کے سربراہ وحید جلال زادہ صدر رئیسی کی ہمراہی کر رہے ہیں۔
آپ کا تبصرہ