یہ بات جنرل خواجہ محمد آصف نے اسلام آباد میں ارنا کے نمائندے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
پانچ سال پہلے اپنے دورہ ایران خاص طور پر مشہد مقدس اور تہران کے شہروں کے سفروں کا حوالہ دیتے ہوئے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اچھی ہمسائیگی اور اچھے سیاسی تعلقات کو قابل قدر قرار دیا۔
انہوں نے انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور ثقافتی تعلقات اور لوگوں کے درمیان اچھے تعلقات کی بنیاد پر تجارتی اور اقتصادی تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستانی حکومت کے اس عہدیدار نے ایرانیوں کی مہمان نوازی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی لوگ ہمارے لیے بہت عزیز ہیں۔ میں نے ستمبر 2017 میں ایران کا سرکاری دورہ کیا اور اس سفر کے دوران مجھے ایسا لگتا تھا کہ اپنے گھر پر ہوں۔
پاکستانی وزیر دفاع نے انہوں نے ایران کے خلاف امریکہ کی ظالمانہ پابندیوں کو دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان تعاون کی ترقی کے راستے میں ایک رکاوٹ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ پابندیوں کی دیوار ہٹانے سے ہم ایران سے گیس، بجلی اور بہت سی دیگر درکار اشیا کی فراہمی کر سکتے ہیں۔
خواجہ محمد آصف نے پاکستان اور ایران کے درمیان مشترکہ سرحدوں پر باڑ لگانے کے منصوبے اور اس کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی سرحد پر بہت زیادہ سرکاری تجارت ہوتی ہے اور اب باڑ لگانے کے منصوبے کے بعد
دونوں ممالک کے درمیان تجارت کی ترقی کے لیے تین اور جگہ کی نشاندہی کی گئی ہے۔
پاکستانی وزیر دفاع نے کہا کہ ایران کے ساتھ دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے کے لیے پاکستان پر کوئی پابندی نہیں ہے اور ہم پیش گوئی کرتے ہیں کہ مستقبل میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت میں اضافہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ بین الاقوامی حالات جیسے پابندیوں کے اثرات نے ایران کے ساتھ تجارت کی راہ میں کچھ مسائل کو پیدا کر دیا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ پاکستان موجودہ تعاون بڑھانے کے لیے دونوں ممالک کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔
خواجہ محمد آصف نے فوجی اور دفاعی میدان میں ایران کی نمایاں کامیابیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم ان کامیابیوں پر واقف ہیں اور ہمارے خیال میں کہ پابندیاں کے خاتمے کی صورت میں ہم دوطرفہ دفاعی اور علاقائی تعاون کی سطح کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔
انہوں نے افغانستان سمیت علاقائی مسائل کے شعبے میں ایران او پاکستان کے تعمیری تعاون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ تعاون دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ابھی بھی جاری ہے۔
انہوں نے دہشتگردی کو تہران اور اسلام آباد کا مشترکہ چیلنج قراردیتے ہوئے کہا کہ دہشتگردی سے نمٹنے کیلیے دونوں ممالک کا تعاون اچھا ہے۔ اگرچہ افغانستان کا بحران کم ہوا ہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس شعبے میں ایران اور پاکستان کے درمیان قریبی تعاون جاری رہے گا۔
پاکستان کے وزیر دفاع نے افغانستان کے چیلنج اور دہشت گردی کے پھیلاؤ، منشیات کی پیداوار میں اضافے اور اسمگلنگ جیسے علاقائی مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کہ علاقائی مسائل کو خطے کے اندر میں حل کیا جانا چاہیے اور ہم اور خطی ممالک اس سے فائدہ اٹھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقائی ہمسایہ ممالک جیسے ایران، چین اور ترکی کو مل کر خطے کے اندر خطی مسائل کا ایک حل تلاش کرنا چاہیے۔ لہٰذا تہران اور اسلام آباد بیرونی طاقتوں کی موجودگی اور مداخلت کی مخالفت کیلیے متحد ہیں۔
محمد آصف نے چین اور روس خطے میں اقتصادی طاقتیں ہیں جب کہ ایران کے پاس توانائی کے بھرپور ذخائر موجود ہیں اور دوسری طرف بھارت کے کردار کو نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر شدید اختلافات ہیں۔
انہوں نے افغانستان کی تبدیلیوں کے حوالے سے کہا کہ دہشتگردی اور منشیات کی اسمگلنگ ایران اور پاکستان کے لیے 2 اہم چیلنجز ہیں۔ اور ہم افغانستان کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے پرامید ہیں۔
خواجہ محمد آصف نے مشرقی وسطی اور خطے کے حالات کے حوالے سے امریکی سیاست کو اشتعال انگیز قرار دیتےہوئے کہا کہ امریکہ کی پالیسیوں کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے مفادات کی بنیاد پر ہے مرکوز ہے اور اسی وجہ سے امریکیوں کی خطے میں متوازن پالیسی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی مفادات سے امریکہ کے دفاع نے نہ صرف فلسطین کے تنازع کے حل کی مدد نہیں کی ہے بلکہ اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے اور ہمارے خیال میں امریکی صدر جو بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا حالیہ دورے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
انہوں نے فلسطینی عوام پر ہونے والے ظلم و ستم کے سامنے عالمی برادری کی خاموشی اور اسرائیل کے خلاف واشنگٹن کے بے حسی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک فلسطین کے خلاف صہیونی جرائم کے سامنے ایک خاموش تماشائی بن گئے ہیں۔
پاکستانی وزیر نے کہا کہ پاکستان کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا اور صہیونی حکومت کے ساتھ تعلقات اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے اس کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ