3 جولائی، 2022، 6:40 PM
Journalist ID: 1917
News ID: 84810427
T T
0 Persons

لیبلز

ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورے شام پر ایک جھلک

ارنا- تہران، اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیر خارجہ نے دورہ دمشق کے موقع پر شامی صدر بشار اسد سے علاقے میں مزید امن اور استحکام برقرار کرنے کے طریقوں کا جائزہ سمیت تہران- دمشق تعلقات اور علاقائی اور بین الاقوامی تبدیلیوں پر گفتگو کی۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، ترکی حکام نے حالیہ دونوں میں بارہا شام کے شمالی علاقوں کیخلاف حملوں کے نئے دور کے آغاز کی بات کی ہے اور ان کے بیانات نے شام کے شمالی علاقوں میں جنگ کی آگ بھڑکانے اور اس علاقے میں مختلف گروہوں کے درمیان کشیدگی کے آغاز اور عوام کو مصائب کا شکار کرنے کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔

شام؛ مارس 2011 سے اپنے دشمنوں بشمول امریکہ، صہیونی ریاست اور ان کے بعض ہمسایہ ملکوں کی چند جہتی سازش کا شکار ہوگیا جو حالیہ سالوں کے دوران، اس کی شدت میں کمی نظر آئی تھی تا ہم بعض شعبوں میں کشیدگی کا از سر نو آغاز جیسے شام کے شمالی علاقوں بشمول صوبے ادلب کیخلاف دہشتگردوں کے قبضے کا تسلسل دیکھنے میں آیا ہے جس کی مغربی ممالک اور مسلح گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے دورہ شام سے پہلے ترکی کا چار روزہ دورہ کرتے ہوئے اس ملک کے اعلی حکام بشمول صدر رجب طیب اردوغان اور وزیر خارجہ مولود چاووش اوغلو سے ملاقات اور گفتگو کی۔

انہوں نے دورہ شام کی آمد کے موقع پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ ان کے اس دورے کا اہم حصہ، اسلامی جمہوریہ ایران سے اچھے تعلقات رکھنے والے شام اور ترکی کے درمیان امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں اقدامات اٹھانے کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم سیکورٹی شعبوں میں ترکی کے خدشات کو سمجھتے ہیں تا ہم، ہم کسی بھی بہانے سے ترکی اور شام کے درمیان تصفیہ طلب امور کے حل کیلئے فوجی کاروائی کے مخالف ہیں اور سفارتی طریقوں اور سیاسی مذاکرات سے ان دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کی کوشش کریں گے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اپنے شامی ہم منصب فیصل مقداد سے اپنی حالیہ ملاقات کے اختتام کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم سفارتی اور سیاسی طریقہ کار اپنانے سے شام اور ترکی کے درمیان تصفیہ طلب امور کے حل کی کوشش کرتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران، شام کے شمالی علاقوں میں جنگ کی روک تھام  کیلئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہیں کرے گا۔

ترکی نے اگست 2016 سے اکتوبر 2019 تک شام کے شمالی علاقوں میں 4 فوجی کاروائیاں کی ہیں جس کی وجہ سے ترک افواج، شامی سرزمین کی 30 کلومیٹر کی گہرائی میں داخل ہوئیں۔

ترکی نے اس طرح کی فوجی کاروائیوں کی وجہ کو شام کے شمالی علاقوں میں مسلح اور دہشتکرد گروہوں کی موجودگی قرار دیتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ ان علاقوں میں قیام امن اور استحکام کی کوشش کرتا ہے۔

اب بھی انقرہ نے شام کے شمالی علاقوں میں ایک خودمختار علاقے کے قیام کے بہانے سے ان علاقوں میں نئی فوجی کاروائیوں کیلئے تیاری کا اظہار کیا ہے جس سے ان علاقوں میں کشیدگی میں اضافے کے خدشات ہیں۔

ایرانی وزیر خارجہ کے حالیہ دورہ شام کے دیگر اہم مقصد کو دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید اضافے کے طریقوں کا جائزہ قرار دیا جاسکتا ہے۔

گزشتہ 40 سالوں کے دوران، دونوں ممالک کے درمیان تعلقات، شام اور ایران کے اعلی حکام کے دونوں ملکوں کے بدستو دوروں سے بڑھتے جا رہے ہیں اور دونوں فریقین اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ شام اور ایران کے اعلی سیاسی حکام کے پختہ عزم کے پیش نظر، فوجی، اقتصادی، ثقافتی، معاشرتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات کا فروغ دے سیکں۔

اسی نقطہ نظر سے شامی صدر بشار اسد نے اب تک اور حتی کہ بحران کے موقع پر کئی بار دورہ ایران کیا ہے جس کا آخری دفعہ 8 مئی 2018 میں ہے جس کے دوران، انہوں نے قائد اسلامی انقلاب حضرت آیت اللہ خامنہ ای اور صدر سید ابراہیم رئیسی سے ملاقتیں کیں۔

تو گزشتہ دہائی کے دوران، موجودہ مسائل جو بعض فریقین اور غیر خطی طاقتوں کے ذریعے پیدا ہوئے ہیں؛ شام اور ترکی کے درمیان ایران کے ثالثی کردار سے مذاکرات کو فعال بنانے سے علاقے میں مزید امن اور سکون آئے گی جس کے سائے میں دیگر مشکلات کے حل کا آسانی سے تعاقب کیا جاسکتا ہے اور شاید ان مشکلات کو مجموعی طور پر حل کرنے کا ایک قدم بھی ہوگا۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .