علاقے کے مستقبل کو مذاکرات کی میز نہیں بلکہ قوموں کی مزاحمت تعین کرتی ہے

تہران، ارنا- ایرانی صدر مملکت نے دہشت گردی اور تکفیری گروہوں کے خلاف شامی عوام کی مزاحمت کو قابل تحسین قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو بات خطے اور فلسطین کے مستقبل کا تعین کرتی ہے وہ مذاکرات کی میزیں اور معاہدے جیسے "اوسلو"، "کیمپ ڈیوڈ" اور "صدی کی ڈیل" نہیں ہے بلکہ قوموں کی مزاحمت ہی نئے علاقائی نظام کا تعین کرتی ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، سید "ابراہیم رئیسی" نے آج بروز اتوار کو تہران کے دورے پر آئے ہوئے شامی صدر "بشار اسد" سے ایک ملاقات میں کہا کہ آج ہم مغربی ایشیائی خطے میں جس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ قائد اسلامی انقلاب کی اس پیشین گوئی کی تکمیل ہے کہ ظالموں اور جارحین کے خلاف قوموں کی مزاحمت نتیجہ خیز ہوگی۔

صدر رئیسی نے شامی اور ایرانی مزاحمت کے شہداء بشمول شہید حاج قاسم سلیمانی کو یاد کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف عالم اسلام کی جدوجہد کو سراہا اور کہا کہ اپنے والد کی طرح آپ بھی مزاحمتی محاذ کی شخصیات میں سے ایک ہیں۔

انہوں نے گزشتہ دہائی میں خطے میں سیاسی اور سیکورٹی تبدیلیوں کو یاد کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ  مزاحمتی مجاہدین، شام سمیت خطے میں استحکام اور سلامتی کے لیے ایک قابل اعتماد قوت ثابت ہوئے ہیں۔

علاقے کے مستقبل کو مذاکرات کی میز نہیں بلکہ قوموں کی مزاحمت تعین کرتی ہے

صدر مملکت نے تمام ممالک کو شام کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے شامی عوام اور حکومت کا ساتھ دیا کیونکہ خطے میں بعض عرب اور غیر عرب رہنما شامی حکومت کے خاتمے پر شرط لگاتے تھے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ شامی فوج اور قومی دفاعی فورسز اور خطے میں اسلامی مزاحمتی جنگجوؤں کی جدوجہد خاص طور پر بہادر حزب اللہ نے داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی فوجی طاقت کی جڑوں کو خشک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا جو کہ پورے علاقے کی سلامتی کے لیے خطرہ تھے۔

صدر رئیسی نے رئیسی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ شام کی سرزمین کے اہم حصوں پر اب بھی غیر ملکی افواج کا قبضہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ  پورے شام کو غیر ملکی قابضین کی غلاظت سے آزاد کرانا ہوگا؛ اس قبضے کو وقت گزرنے کے تابع نہیں ہونا ہوگا اور قابض افواج اور ان کے کرائے کے فوجیوں کو نکال باہر کیا جانا ہوگا۔

صدر مملکت نے صہیونی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ خطے میں صیہونی حکومت کی دھمکیوں پر دفاعی مساوات کو مضبوط اور متنوع بنا کر غور کرنا ہوگا۔

صدر رئیسی نے دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور ہم آہنگی کو مضبوط کرنے کی ضرورت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ دمشق کے ساتھ بالخصوص اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں، تعاون اور تعلقات کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے تہران کی سنجیدہ خواہش ہے اور یہ حکومت کی سنجیدہ ترجیحات میں شامل ہے۔

علاقے کے مستقبل کو مذاکرات کی میز نہیں بلکہ قوموں کی مزاحمت تعین کرتی ہے

در این اثنا شام کے صدر بشار اسد نے بھی خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے کردار کی اہمیت پر تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک سیکورٹی، سیاسی اور اقتصادی میدانوں میں ایران کے ساتھ وسیع تر ہم آہنگی اور تعاون کے لیے تیار ہے۔ مغربی اور تکفیری جارحیت کے خلاف مزاحمت اور تصادم کے سالوں میں ایران واحد ملک تھا جو شروع سے ہمارے ساتھ کھڑا رہا۔

انہوں نے شام اور ایران کے تعلقات کو اسٹریٹجک قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمت کے محور کے خلاف ایک دہائی کی جنگ کے بعد علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں نے ظاہر کیا کہ استقامت موثر اور نتیجہ خیز ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے دکھایا ہے کہ خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر کام کر کے ہم امریکہ اور سپر پاور ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو شکست دے سکتے ہیں۔

شامی صدر نے کہا کہ تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ مسئلہ فلسطین سمیت مختلف مسائل پر خطے کے ممالک کے درمیان ہم آہنگی اور تعامل بہت موثر رہا ہے اور فلسطینی مزاحمت کی کامیابی نے ظاہر کیا ہے کہ بعض عربوں کے سمجھوتے نے پلٹا کھایا ہے۔

شام کے صدر نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامی عوام کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حمایت کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ شامی عوام اور حکومت ایرانی عوام کے شکر گزار ہیں اور اپنے آپ کو ایران کا مقروض سمجھتے ہیں۔
 

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .