استنبول سمیت ترکیہ کے دیگر شہروں میں احتجاج میں شامل مظاہرین کا کہنا ہے کہ "بدعنوانی اور دہشت گرد نیٹ ورکس سے تعلق" کے الزام میں اردغان کی حکومت کی جانب سے امام اوغلو کی گرفتاری دراصل 2028 کے ترک صدارتی انتخابات سے ان کے ایک اہم حریف کو راستے سے ہٹانے کی سیاسی کوشش ہے۔
دریں اثنا، اردغان اور جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے ترکیہ کے موجودہ واقعات میں مداخلت کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ میئر کی گرفتاری ایک عدالتی مسئلہ ہے نہ کہ سیاسی۔
اکرم امام اوغلو، کو کئی دیگر اہم سیاسی شخصیات کے ساتھ، 19 مارچ کو ان کے گھر پر پولیس کے چھاپے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔
مظاہرے جاری ہیں جبکہ حکومت نے پورے ملک میں 4 روز کے لیے مظاہروں پر پابندی عائد کر دی ہے اور متعدد سڑکیں بند کر کے مظاہرین کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔
ترک پولیس نے جمعرات کو "اردوگان استعفیٰ دو" کے نعرے لگانے والے مظاہرین پر آنسو گیس اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق پولیس نے استنبول کے مرکزی چوک تقسیم اسکوائر کی طرف رکاوٹیں توڑ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کے ایک گروپ کومنتشر کرنے کے لیے پیپراسپرے کا استعمال کیا۔
انقرہ میں، شہر کی مشہور یونیورسٹیوں میں سے ایک مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس اور پانی کی توپوں کا استعمال کیا۔
ترک وزارت داخلہ نے بتایا کہ استنبول میں مظاہرین کے ساتھ جھڑپوں میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
میونسپل عمارت کے سامنے ہونے والی ریلی میں، میئر کی پارٹی، ترک پیپلز ریپبلکن پارٹی کے رہنما اوزگور اوزل نے پارٹی کے حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے حقوق مانگنے کے لیے سڑکوں پر آئیں، لیکن تشدد سے پرہیز کریں۔
اس گرفتاری نے ترکیہ کی اسٹاک کو بھی ایک بڑا جھٹکا پہنچایا، اور بدھ کے روز تجارت عارضی طور پر رک دی گئی تاکہ اسٹاک کو بحرانی صورتحال سے بچایا جا سکے۔
آپ کا تبصرہ