شدید نقصان کے باوجود، اسٹریٹیجک برتری اب بھی استقامتی محاذ کی ہے، ارنا کے سربراہ حسین جابری انصاری

تہران/ ارنا- ارنا نیوز ایجنسی کے سربراہ اور سینیئر سفارتکار حسین جابری انصاری نے "عصر اندیشہ" جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ طوفان الاقصی اسرائیل کے لیے ایک سیاسی، فوجی اور سیکورٹی زلزلہ تھا جس نے غاصب صیہونی حکومت کی کمزور بنیادوں کا پردہ فاش کردیا۔

انہوں نے کہا کہ اسرائیل ایک ایسے واقعے کا نام ہے جو عالمی طاقتوں کی حمایت اور ان کے اندرونی تعاون کے نتیجے میں پیش آیا اور اس کا وجود امریکہ اور برطانیہ کی سازش کے مرہون منت ہے۔

حسین جابری انصاری نے کہا کہ صیہونی حکومت پوری فلسطینی سرزمین پر قابض ہونا چاہتی ہے اور ہر اس معاہدے یا سمجھوتے کی مخالف ہے جس میں اس کے اس موقف کو نظرانداز کیا گیا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اگر مغربی طاقتیں اسرائیل کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو یہ سسٹم ایک سے تین سال کے اندار خود ہی تباہ ہوجائے گا۔

ارنا کے سربراہ نے کہا کہ فلسطین کے سلسلے میں عرب ممالک نے بھی افراط اور تفریط سے کام لیا، ایک وقت فلسطین کی آزادی کے لیے روائتی جنگ کا آغاز کیا تو دوسری طرف استقامت کا راستہ اپنانے کے بجائے تل ابیب کے ساتھ حالات معمول پر لانے اور سازشی ٹولے میں داخل ہونے کا راستہ اپنا لیا، لیکن فلسطین کی آزادی کے لیے ان کے اس اقدام کا نہ صرف کوئی نتیجہ نہیں نکلا بلکہ یہ ممالک اسرائیل کی حمایت کرنے کی جال میں الجھ گئے۔

حسین جابری انصاری نے کہا کہ ایران کے اسلامی انقلاب نے ایسے موقع پر ایک تیسرا طریقہ پیش کیا جو نہ روائتی جنگ پر مبنی تھا نہ ہی اسرائیل کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی انقلاب نے طویل المدت اور مسلسل مزاحمت کا راستہ متعارف کروایا جس کے تحت اگر اسرائیل سے براہ راست فوجی ٹکراؤ ممکن نہیں تو اس کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

"اس پالیسی کے تحت، صیہونی حکومت کے خلاف استقامت اتنی جاری رہے گی کہ غاصب صیہونیوں کی طاقت آہستہ آہستہ فرسودہ ہوکر خود ہی ختم ہوجائے"۔

ارنا کے سربراہ نے مزید کہا کہ استقامتی محاذ کے سربراہوں کی شہادت سے بھی یہ راستہ رکنے والا نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں نے ثابت کردیا ہے کہ 20 یا 22 فیصد فلسطینی سرزمینوں پر اکتفا کرنے کا بھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں لہذا تل ابیب کے ساتھ صلح ناممکن ہے کیونکہ اسرائیل اور صیہونیت ایک ایسا منصوبہ ہے جس کا مقصد پورے علاقے پر تسلط قائم کرنا ہے۔

حسین جابری انصاری نے کہا: "ایسے منصوبے کے سامنے ڈٹ جانا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ اسے روکنے کے لیے طویل عرصے تک بڑی قربانیاں پیش کرنا ہوں  گی اور اس کے لیے آخری ہدف پر مرکوز ہونے کی ضرورت ہے جسے استقامتی محاذ نے اچھی طرح سے سمجھ لیا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ صیہونی حکومت استقامتی محاذ کو سمجھنے میں غلط فہمی کا شکار ہوگئی ہے اور اب تل ابیب کی پریشانی اور اندرونی بحران کا بخوبی مشاہدہ کیا جا رہا ہے۔

جابری انصاری نے کہا کہ گزشتہ دو سے تین مہینے کے دوران اسرائیل نے اپنے سقوط کو روکنے کی بھرپور کوشش کی ہے لیکن اسے ایک مستحکم استقامتی سسٹم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے سامنے وہ بے بس ہے۔

ارنا کے سربراہ نے کہا کہ اگر اسرائیل کو کامیابی ملی ہوتی تو اسے تہران میں قاتلانہ حملہ کروانے کی ضرورت ہوتی نہ نئے محاذ کھولنے کی۔

انہوں نے زور دیکر کہا کہ  تمام نقصانات کے باوجود، ثابت ہوگیا ہے کہ اسٹریٹیجک برتری اب بھی استقامتی محاذ کے ہاتھوں میں ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .