کشمیر ڈے، پاکستان کے عوام اور حکومت کا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی

اسلام آباد (ارنا) آج بروز 5 فروری ، پاکستانی عوام نے اسلام آباد اور ملک کے دیگر شہروں میں، کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے قومی دن کے موقع پر اعلیٰ حکومتی، سیاسی اور مذہبی حکام کی شرکت سے ریلیاں نکالیں۔

IRNA کے نامہ نگار کے مطابق، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 7 دہائیوں سے زائد عرصے سے جموں و کشمیر کے متنازعہ علاقے کی ملکیت پر سنگین تنازعہ چل رہا ہے اور اب تک 3 بار جنگ ہو چکی ہے۔ یہ دونوں ایٹمی پڑوسی گزشتہ 6 سالوں سے تعلقات کی نچلی ترین سطح کا سامنا کر رہے ہیں جس کی بڑی وجہ کشمیر پر بڑھتے ہوئے اختلافات ہیں۔

پاکستان میں اس سال یوم یکجہتی کشمیر ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب کہ گزشتہ 4 سال سے پاک بھارت سرحدوں پر صورتحال پرسکون ہے اور دونوں ممالک نے فروری 2021 میں سرحدی جنگ بندی کے معاہدے کی پاسداری کے اپنے معاہدے کی تجدید کے بعد کسی بھی تنازعے یا فائرنگ کے تبادلے سے گریز کیا ہے۔

کشمیر ڈے، پاکستان کے عوام اور حکومت کا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی

1980 کی دہائی کے اواخر میں جماعت اسلامی کے رہنما مرحوم قاضی حسین احمد کی قیادت میں پاکستان کی جماعت اسلامی نے پہلی بار یوم یکجہتی کشمیر منایا۔ اس کے بعد اس وقت کی پاکستانی حکومت نے اس دن کو قومی دن اور سرکاری تعطیل کا اعلان کیا اور تب سے ہر سال کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا قومی دن ملک کے مختلف شہروں میں مارچ اور کشمیری عوام کی حمایت میں پلے کارڈز اور تصاویر کی تنصیب کے ساتھ منایا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف، کشمیری عوام کے ساتھ  اظہار یکجہتی کے لیے آج (پاکستان کے زیر کنٹرول) آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد گئے اور ایک پیغام میں عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مکمل تحقیقات کرائے، اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کے لیے کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1948 میں منظور کی گئی قرارداد کے مطابق کشمیری عوام کو انتخاب کا حق اور حق خود ارادیت اور اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنا چاہیے۔ پاکستان بھی ہمیشہ اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ وہ کشمیر کے علاقے میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد چاہتا ہے اور کشمیری عوام کو خود انتخاب کرنا چاہیے کہ وہ ہندوستان یا پاکستان میں سے کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔

کشمیر ڈے، پاکستان کے عوام اور حکومت کا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی

پاکستانی وزیر اعظم نے اپنے پیغام میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کشمیر میں نہتے لوگوں پر ہونے والے جبر و تشدد کی شدید مذمت کرتا ہے اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔

اسلام آباد میں پارلیمنٹ کے سامنے مرکزی کشمیر یکجہتی مارچ کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران، وزراء اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔

مارچ کے شرکا نے تاکید کی کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیری عوام کی روحانی، سفارتی اور سیاسی حمایت کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کی تقریبات پاکستان سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں میں بھی ایک ساتھ منعقد کی جا رہی ہیں۔

کشمیر ڈے، پاکستان کے عوام اور حکومت کا کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے بھی آج ایک بیان جاری کیا، جس میں کشمیری عوام کے لیے مسلح افواج کی حمایت کا اعلان کیا گیا، اور کہا گیا کہ دنیا کو مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر حل کرنے اور کشمیری عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری سے آگاہ ہونا چاہیے۔

14 اگست 1947 کو پاکستان کی آزادی کے بعد، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ کشمیر کے تمام مسلم آبادی والے علاقوں کو ملک کی سرزمین کا حصہ سمجھا جائے گا، لیکن کشمیر کے مہاراجہ (بادشاہ) نے دغا کرتے ہوئے اعلان کیا کہ کشمیر کی مسلم آبادی والی سرزمین ہندوستانی علاقے کا حصہ ہے۔

کشمیر کے مہاراجہ شروع میں کشمیر میں ایک آزاد ریاست چاہتے تھے لیکن خطے کے لوگوں نے پاکستان سے الحاق یا مسلم اکثریتی ریاست کا مطالبہ کیا بالآخر حکمران نے ایک معاہدے کے ذریعے کشمیر کو بھارت کے حوالے کر دیا، جس سے بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ جڑ پکڑ گیا۔

1947 سے کشمیر کا مسئلہ جنوبی ایشیا میں روایتی حریفوں، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان اہم تنازعات میں سے ایک رہا ہے، اسلام آباد حکومت نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان اختلافات کے حل کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ کوئی بھی مذاکرات مسئلہ کشمیر کو تسلیم کیے بغیر نہیں ہونگے، اور مسئلہ کشمیر دو ملکوں کے درمیان تمام مذاکرات کا محور ہوگا۔، یہ ایک ایسا مسئلہ جس سے نئی دہلی ہمیشہ انکار کرتا آیا ہے۔

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .