صدر مملکت نے مقامی وقت کے مطابق بدھ کی رات نیویارک میں غیر ملکی اور امریکی ذرائع ابلاغ کے ساتھ اپنی اختتامی پریس کانفرنس میں الجزیرہ ٹی وی چینل کے صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: قیدیوں کے تبادلے میں قطر کے تعمیری رول پر اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس سلسلے میں قطر اور عمان کا رول، ثالثی کا تھا اور اس قسم کے کردار سے نتیجے کے حصول پر مثبت اثر پڑتا ہے۔
صدر مملکت سید ابراہیم رئيسی نے کہا ہے کہ اپنے اثاثوں تک رسائي اور ملک کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اس کا استعمال اسلامی جمہوریہ ایران کا فطری حق ہے اور ایران کے منجمد اثاثوں سے پابندی اس سے بہت پہلی ہٹ جانی چاہیے تھی۔
صدر نے اسی طرح ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران کو امید ہے کہ امریکہ اور یورپ ایٹمی معاہدے کے اپنے وعدوں پر عمل کريں گے اور ایران پر عائد غیر منصفانہ پابندیاں ختم کر دیں گے اور اس سلسلے میں امریکہ اور یورپ کو نیک نیتی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
صدر نے کہا: ہم کبھی مذاکرات کی میز سے نہيں ہٹے لیکن دوسرے فریقوں نے غلط اندازے لگاتے ہوئے، بلوؤں سے امید باندھ لی تھی لیکن ایرانی قوم نے مغربی ملکوں کے اندازوں کو غلط ثابت کر دیا اور بلوؤں کو ناکام بنا دیا۔
انہوں نے کہا: اگر امریکہ وعدوں کی پابندی کرے تو اچھا معاہدہ ہو سکتا ہے۔
صدر سید ابراہیم رئيسی نے اسی طرح روسی وزیر دفاع کے تہران دورے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ایران و روس کے درمیان فوجی، معاشی ، سیاسی اور علمی تعاون ہمیشہ رہا ہے اور رہے گا۔
صدر ایران نے جمہوریہ آذربائيجان اور آرمینیا کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران نے اعلان کیا ہے کہ جمہوریہ آذربائيجان اور آرمینیا کے درمیان کشیدگی قابل قبول نہیں ہے اور اس تنازعہ کو مذاکرات سے حل کیا جا سکتا ہے۔
صدر نے کہا: ایران علاقے میں کسی بھی طرح کی جیو پالیٹیکل تبدیلی کو قبول نہیں کرے گا اور فریقین نے کہا ہے کہ وہ ایران کی مرضی کے خلاف کوئي اقدام نہيں کریں گے۔
صدر ایران نے اسی طرح ارنا کے رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے مصر کے بارے میں کہا: ایران کی پالیسی، تمام پڑوسی اور اسلامی ملکوں سے تعلقات استوار کرنے پر مبنی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے عہدیداروں نے مصر کو اطلاع دے دی ہے کہ اس کے ساتھ تعلقات کی بحالی میں کوئي مسئلہ نہيں ہے اور ایران و مصر کے وزرائے خارجہ کے درمیان جو ملاقات ہوئي ہے وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بحالی کی راہ میں ایک قدم ہو سکتی ہے۔
صدر سید ابراہیم رئيسی نے روئٹرز کے رپورٹر کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ہم نے بارہا کہا ہے کہ ایران کی ایٹمی سرگرمیاں پر امن ہیں اور ملک کی ضرورت کے حساب سے یورینیم کی افزودگی جاری رہے گي اور افزودگی کے فیصد کو بہت زیادہ بڑھانے کی رپورٹیں جھوٹی ہیں البتہ جب دوسرے فریقوں نے ایٹمی معاہدے کی پابندی نہيں کی تو کچھ مدت کے لئے ایران نے افزودگی بڑھا دی تھی لیکن یہ یقینی ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران پر امن مقاصد کے لئے جتنا ضروری ہوگا ، یورینیم افزودہ کرے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر نے اسی طرح علاقائی ملکوں کے ساتھ ایران کے تعلقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: علاقائي ملکوں کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں اور اب سعودی عرب کے ساتھ بھی تعلق بحال ہو گیا ہے اور ہم تعلقات میں توسیع کا عزم رکھتے ہيں۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ اب تک صیہونی حکومت اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی کوئي خبر نہيں سنی ہے کہا کہ صیہونی حکومت کے ساتھ تعلق قائم کرنا کسی بھی علاقائی ملک کے لئے سلامتی کا باعث نہیں بنے گا۔
انہوں نے کہا: صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات، فلسطینی عوام اور ان کی مزاحمت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا ہے۔
صدر مملکت نے نیوز ویک کی جانب سے مزاحمتی تنظیموں کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: علاقے میں مزاحمتی تنظيمیں، اپنے اپنے ملکوں کے تحفظ کے لئے بنی ہیں اور لبنان میں مزاحمتی تنظیمیں اپنے ملک کی سرحدوں کے تحفظ میں اہم رول ادا کر سکتی ہيں اور حزب اللہ نے اب تک لبنان کے تحفظ میں تعمیری کردار ادا کیا ہے اور الحشد الشعبی، عراقی فوج کے ساتھ مل کر عراق کی حفاظت کر رہی ہے۔
صدر مملکت نے ہر دل عزیز شہید جنرل قاسم سلیمانی کے بزدلانہ قتل کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: جس نے یہ قتل کیا ہے اور جس نے اس کا حکم دیا ہے اسے معاف نہيں کیا جا سکتا اور شہید جنرل قاسم سلیمانی کے قاتلوں کے معاملے کے نظر انداز کرنا ، انسانیت کے ساتھ غداری اور ریاستی دہشت گردی کو بڑھاوا دینا ہے۔
صدر ایران نے کہا: شہید سلیمانی کو قتل کرنے والے اور اس کا حکم دینے والوں کو ایک منصفانہ عدالت میں کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے اور بہت واضح بات ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئي شک نہيں ہے۔
صدر ایران نے کہا کہ ایران و عراق اور دنیا بھر کے حریت پسندوں کی یہ خواہش ہے کہ اس جرم پر کارروائی کی جائے اور سب کو جان لینا چاہیے جرم کی سزا ضرور دی جائے گی۔
آپ کا تبصرہ