ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان نے جمعہ کی رات سعودی عرب کے دو روزہ دورے سے واپسی کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا: سعودی عرب کے وزیر خارجہ سے ہونے والی بات چیت میں 70 فیصد سے زيادہ حصہ باہمی امور سے متعلق تھا اور ہمارا ماننا ہے کہ تہران و ریاض کے درمیان جامع اور مستحکم تعلقات قائم ہونا ضروری ہے اس لئے ہم نے اتفاق کیا ہے کہ معاشی، تجارتی اور سیاحتی شعبے میں دونوں ملکوں کے سرکاری اور نجی سیکٹروں کے درمیان مضبوطی سے تعاون کریں گے۔
انہوں نے جمعہ کے روز سعودی ولی عہد بن سلمان سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ہم نے 90 منٹ سے زیادہ وقت تک واضح اور کھلی بات چیت کی اور ہم دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ علاقے میں پائدار امن و ترقی کا تعلق پورے علاقے سے ہونا چاہیے چنانچہ فریقین نے سب کی ترقی اور سب کے لئے امن و امان پر زور دیا۔
وزیر خارجہ نے کہا: جناب محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ علاقے میں پائدار ترقی و امن و امان سعودی عرب کے فائدے میں بھی ہوگا۔
ایران کے وزیر خارجہ امیر عبد اللہیان نے ایران و سعودی عرب کے پاس موجود بے پناہ گنجائشوں پر فریقن کی جانب سے ديئے جانے والے زور کا ذکر کیا اور کہا جناب محمد بن سلمان نے، سعودی عرب کے وزير خارجہ بن فرحان کو حکم دیا کہ دونوں ملکوں کے درمیان طویل مدتی تعاون کے دستاويزات کی تیاری کی جائے تاکہ دونوں ملکوں کے اعلی حکام کے دورے میں ان پر دستخط کئے جائيں۔
انہوں نے بتایا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے محمد بن سلمان کو تہران کے دورے کی دعوت دی ہے جسے انہوں نے قبول کر لیا ہے اور مناسب وقت پر وہ تہران کا دورہ کریں گے۔
ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ اس دورے میں سعودی عرب کی کوشش تھی کہ وہ ماضی سے ہٹ کر نئے نظریے پر زور دے اور تعلقات کے نئے دور کے آغاز کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کرے ۔
انہوں نے کہا: میرا یہ خیال ہے کہ علاقہ کثیر جہتی تعاون کے ایک نئے دور میں داخل ہوگا اور یہ ادراک پیدا ہو گیا ہے کہ علاقے کو غیر ملکیوں کے بغیر پائدار ترقی کی سمت بڑھنا چاہیے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے وزير خارجہ سعودی عرب کے دو روزہ دورے کے بعد جمعہ کی شام تہران واپس لوٹ آئے۔
ماہرین اس دورے کو تہران و ریاض کے تعلقات میں نئے دور کے آغاز اور علاقائی مسائل کے حل سے تعبیر کر رہے ہيں ۔
آپ کا تبصرہ