فلسطین کے امور کے ماہر حسین جابری انصاری نے " کیا 7 اکتوبر کا آپریشن صحیح تھا؟ " عنوان کے تحت ایک سیمنار میں کہا کہ ہم نے فلسطین کے بارے میں بہت باتیں کی ہیں لیکن عمل نہيں کیا اور ہمیں اسرائيل کی بہت کم شناخت ہے۔
انہوں نے کہا: فلسطین میں جو کچھ ہوا ہے وہ مقامی لوگوں کے حقوق کی پامالی ہے جس کی بہت سی خصوصیات ہيں جن میں سے ایک یہ کہ یہ سب کچھ ایک قوم کی ہاتھوں ہوا ہے۔
ارنا کے ڈائریکٹر نے کہا کہ یورپ کے لوگ اور یہیودی مذہب کے ظاہری امور میں اعتقاد رکھنے والے سیاسی صیہونیت کے زیر سایہ جمع ہوئے اور اس تحریک کی شکل میں منصوبہ بند طریقے سے فلسطین کے خاص علاقے میں آئے ہيں اس لئے بات یہ نہيں ہے کہ زندگی گزارنے کے لئے ایک نئے بر اعظم کا انکشاف ہوا ہے بلکہ یورپ میں وجود میں آنے والی دنیوی قوم پرستی کے نظریہ کے ساتھ صیہونیت ہمیشہ سے دینی عقائد اور ارض موعود کی طرف واپسی سے جڑی رہی ہے۔
انہوں نے کہا: انہوں نے جعلی قومیت بنائی اور اسی خاص معنوں میں استعمال کیا اور یہودیت کو ایک قوم میں بدل دیا اور اس میں مذہبی نظریات بھی شامل کر دیئے جبکہ قوم ایک جغرافیائی مقام پر رہنے والوں کو کہا جاتا ہے جو ایک ساتھ زندگی گزارتے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ صیہونیوں نے مختلف دہشت گردانہ حربوں سے تقریبا دس لاکھ فلسطینیوں کو اپنا وطن اور گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
انہوں نے اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ بہت سی فلسطینی تحریکیں وجود میں آئيں اور عرب حکومتیں فلسطینیوں کی مدد سے دور ہو گئيں اور مصر نے اسرائيل سے صلح کر لی، کہا کہ اس وقت بھی فلسطین جنوب سے اپنے عرب بھائيوں اور مصر کی جانب سے محاصرے میں ہے۔
ارنا کے ڈائریکٹر نے کہا کہ ایسے حالات میں کہ جب ایک قوم کے پاس کوئی چارہ نہ ہو اور اس کے سامنے جنگ یا صلح کی کوئی روزن امید نہ ہو تو 7 اکتوبر کے واقعات مقبوضہ علاقے کے لوگوں کا ایک بے حد فطری رد عمل ہے۔
جابری انصاری نے 7 اکتوبر کی وجوہات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب ایک قوم اپنے رہنما کی موت کے بیس سال بعد کہ جس نے امن کے لئے خود کو قربان کر دیا لیکن آخر میں اس پر امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام عائد کیا گيا اور اسے زہر دے دیا گيا ، عربوں کی طرف سے غاصبوں کے سامنے تنہا چھوڑ دی جاتی ہے تو اس کے ساتھ 7 اکتوبر کے علاوہ اور کوئی چارہ نہيں رہ جاتا۔
انہوں نے کہا کہ 7 اکتوبر کی وجہ سے عرب ملکوں سے تعلقات معمول پر لانے کا عمل اور ابراہم پروجیکٹ مٹی میں مل گيا۔
انہوں نے کہا کہ غزہ ختم نہيں ہوگا بلکہ یہ بیت المقدس کی آزادی کا آغاز ہے۔
آپ کا تبصرہ