اقوام متحدہ کی 193 ارکین پر مشتمل جنرل اسمبلی نے، مراکش کی جانب سے پیش کی گئي قرارداد کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منظور ہونے والی اس قرارداد میں، کسی کے مذہب یا خیالات کی بناء پر اس کے خلاف ہر طرح کے تشدد اور اسی طرح مذہبی علامتوں، مقدس کتابوں ، گھروں، کاموں، ملکیتوں، اسکولوں، ثقافتی مراکز یا عبادت گاہوں اور زيارت گاہوں کے خلاف ہر طرح کے اقدام اور حملے کی مذمت کی گئي ہے اور اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گيا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھی 12 جولائي کو اسلامی ملکوں کی جانب سے پیش کی گئي ایک قرارداد کو منظوری دے کر قرآن مجید کی بے حرمتی کی مذمت اور اس اقدام کا جائزہ لے کر انسانی حقوق کے اعلی کمیشن کو رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی حالانکہ مغربی ملکوں نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی لیکن اس کے باوجود قرارداد منظور ہوئي اور اس میں قرآن کریم کی بے حرمتی کی مذمت کا مطالبہ کیا گيا اور اسے " مذہبی منافرت" کے تحت اٹھایا جانے والا قدم بھی قرار دیا۔
امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کی نمائندگی کرتے ہوئے بلجیئم نے اس قرارداد کی مخالفت کی تھی لیکن انسانی حقوق کے کمیشن نے اکثریت سے اس قرارداد کو منظور کر لیا۔
یاد رہے حالیہ دنوں میں یورپی ملکوں میں قرآن مجید کی بے حرمتی کا ایک سازش کے تحت سلسلہ شروع کر دیا گيا ہے۔
ڈنمارک میں ایک شدت پسند اسلام مخالف تنظیم نے گزشتہ جمعہ کے روز عراقی سفارت خانے کے سامنے قرآن مجید کی بے حرمتی کی ہے۔ اس سے قبل سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی گئي تھی جس پر پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ ہے ۔
سویڈن کی حکومت نے عالم اسلام کے غم و غصے کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ اسی شخص کو قرآن کی بے حرمتی کی اجازت دی تھی جو پہلے ہی یہ مذموم حرکت کر چکا تھا۔
در ایں اثنا ایران کی وزارت انٹیلیجینس نے سوئیڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے فرد کی صیہونی حکومت کے ساتھ وابستگی کے نئےثبوت شائع کئے ہیں جن کے مطابق "مومیکا منصوبہ" کا ہدف مسلمانوں کی توجہ کو صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم سے ہٹانا ہے۔
ان دستاویزات کے مطابق، سن 2014 میں سالوان مومیکا نےعراق میں "سریانی ڈیموکریٹک یونین" کے نام سے ایک پارٹی قائم کی اور دعویٰ کیا کہ وہ شمال مغربی عراق میں عیسائیوں کا مرکزی نمائندہ ہے تاہم، اس کے ملک دشمن مقاصد اور مشکوک حرکات کی وجہ سے عراق میں اس کے بارے میں حساسیت اور شکوک میں اضافہ ہوتا رہا یہاں تک کہ اسے عراق میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے میدان تنگ نظر آنے لگا۔
سالوان مومیکا نے کئی یورپی ممالک میں رہائش کے لیے درخواستیں دیں، لیکن مناسب جواب نہ ملنے پر اس نے فلسطین پر قابض صیہونی حکومت سے رابطے کے لیے وسیع پیمانے پر کوششیں شروع کردیں ۔ صیہونی انٹیلیجینس ایجنسی کے لیے اپنی وفاداری اور کارگردگی ثابت کرنے کے لیے، اسنے خود کو عراقی حکومت کے اہم ترین مخالفین میں سے ایک کے طور پر متعارف کرایا ۔ اس نے یہ دعوی بھی کیا کہ اسے عراق کی اسلامی مزاحمتی تحریک نے مقبوضہ فلسطین پر قابض حکومت کے ساتھ تعاون کرنے اور صوبہ نینوا میں عیسائیوں کی ایک آزاد حکومت بنانے کی کوشش کرنے کے الزام میں کچھ عرصے کے لیے قید میں بھی رکھا تھا۔
دستاویزات کے مطابق سویڈن میں سیلوان مومیکا کی طرف سے قرآن مجید کی بے حرمتی کا مجرمانہ منصوبہ دراصل مقبوضہ فلسطین کے مغربی کنارے اور جنین کے خلاف صیہونی جرائم سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا ہے۔
آپ کا تبصرہ