ایٹمی معاہدے کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار امریکہ ہے

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ انکا ملک متعلقہ فریقوں سے رابطے اور ہم آہنگی کے ذریعے کم ترین مدت میں ایٹمی معاہدے کی بحالی کی کوشش جاری رکھے گا۔

تہران۔ ارنا۔ بیجنگ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے، چین  کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ ون بین  نے امریکہ کو ایٹمی معاہدے کی موجودہ صورتحال کا اصل ذمہ دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا امریکہ نے ایٹمی معاہدے سے یک طرفہ طور پر علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ایران پر شدید ترین دباؤ ڈالا ہے۔

 چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ بات چیت اور مذاکرات کے ذریعے ایٹمی معاہدے پر مکمل اور موثر عملدرآمد کا راستہ ہموار کرنا متعلقہ فریقوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔

وانگ ون بین نے یہ بات زور دے کر کہی کہ چین متعلقہ فریقوں کے ساتھ رابطوں کے ذریعے، ایٹمی معاہدے کو صحیح ٹریک پر واپس لانے، سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کی بالادستی اور تاثیر کو باقی رکھنے اور ایران کے ایٹمی معاملے کو سیاسی اور سفارتی طریقے سے حل کرنے کی کوشش جاری رکھے گا۔   

 واضح رہے کہ قرار داد 2231 اور ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے بارے میں سلامتی کونسل کا اجلاس اس وقت روس، امریکہ اور برطانیہ کے مندوبین کے درمیان سفارتی محاذ آرائی میں تبدیل ہوگيا جب سلامتی کونسل کی چیرپرسن نے مغربی ملکوں کے ایما پر یوکرین کے مندوب کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جس کا مقصد ایران کے دفاعی پروگرام کے خلاف اپنے ناپاک منصوبے کو عملی جامہ پہنانا ہے۔

 روس کے مستقل مندوب ویسلی نبنزیا نے برطانوی مندوب اور سلامتی کونسل کی موجودہ چیر پرسن کے فیصلے پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے ملک کو اجلاس میں شرکت کی دعوت کیوں دی گئی ہے جس کا جامع ایٹمی معاہدے جے سی پی او اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ 

انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ ایٹمی معاہدے کے کسی غیر رکن ملک کو قرارداد 2231 کے بارے میں ہونے والے اجلاس میں خاص مقاصد کے تحت بلایا گيا ہے کیونکہ ماضی  میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ 

سلامتی کونسل میں روس کے مستقل مندوب نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ امریکہ نے سن 2018 میں ایٹمی معاہدے سے خود سرانہ علیحدگی اختیار کرکے اس معاہدے کو خطرے میں ڈالا ہے جبکہ سلامتی کونسل کے موجودہ صدر کی حثیت سے برطانیہ ہر  معاملے کو یوکرین سے جوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا  ہمارا سامنا ایک ایسی سلامتی کونسل سے ہے جو ایٹمی معاہدے کی پیروی کے بجائے بعض ملکوں کے سیاسی اہداف کا ہتھکنڈہ بن گئی ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب امیر سعید ایروانی نے بھی قرارداد 2231 سے متعلق سلامتی کونسل کے اجلاس میں یوکرین کو شرکت کی دعوت دیئے جانے پر کڑی نکتہ چینی ۔۔۔۔ انہوں نے کہا کہ تہران اس اجلاس میں کسی بھی ایسے ملک کو بلائے جانے کا مخالف ہے جس کا ایٹمی معاہدے سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام نہ تو تعمیری ہے اور نہ ہی نیک نیتی پر مبنی ہے بلکہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ  یہ کام ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد اور اس کے تحت کئے گئے وعدوں سے مغربی ملکوں کی کھلی روگردانی پر پردہ ڈالنے اور رائے عامہ کو منحرف کرنے کی  غرض سے کیا گيا ہے۔

مغربی ملکوں کا دعوی ہے کہ ایران جنگ یوکرین میں استعمال کے لیے رو‎س کو ڈرون طیارے فراہم کر رہا ہے اور یہ اقدام بقول ان کے سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے منافی ہے۔ حالانکہ ماسکو اور تہران بارہا ان د‏عووں کو سختی سے مسترد کرچکے ہیں۔

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .