یہ بات امیر سعید ایروانی نے گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے جے سی پی او اے ﴿ جوہری معاہدہ﴾ اور سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 پر عمل درآمد کے حوالے سے ہونے والے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےکہی۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ دہوکہ دہی بند کرے اور دکھائے کہ وہ بھی اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے قابل ہے۔
اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل مندوب نے کہا کہ اگر امریکہ واقعی مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کی بحالی چاہتا ہے تو اسے دباؤ اور محاذ آرائی کے بجائے سفارت کاری کا انتخاب کرنا ہوگا۔
خیال رہے کہ سلامتی کونسل کی مذکورہ قرار داد میں ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین ہونے والے اس معاہدے (جے سی پی او اے) کی توثیق کرتے ہوئے اسے برقرار رکھا گیا ہے۔
مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) جولائی 2015 میں طے پایا تھا، جس کی رو سے ایران کے خلاف امریکہ کی کچھ سخت پابندیوں کو ہٹا دیا گیا تھا اس کے عوض اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنے پرامن جوہری توانائی کے پروگرام میں کچھ رضاکارانہ تبدیلیاں کی تھیں۔ معاہدہ طے پانے پر سلامتی کونسل نے قرارداد 2231 کے ذریعے اس کی توثیق کی اور منظور کیا۔
تاہم امریکہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی منظور کردہ "زیادہ سے زیادہ دباؤ" کی پالیسی کے تحت 2018 میں جے سی پی او اے سے یکطرفہ طور پر دستبرداری اختیار کر لی۔ معاہدے سے نکلنے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ تمام پابندیاں دوبارہ سے لاگو کر دیں جو معاہدے نے ختم کر دی تھیں۔
ایرانی سفیر نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ جے سی پی او اے کو صرف اس کی موجودہ صورتحال کی بنیادی وجہ کو حل کر کے ہی بحال کیا جا سکتا ہے جو کہ 8 مئی 2018 کو معاہدے سے امریکہ کی یکطرفہ دستبرداری ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جگہ لینے والی بائیڈن انتظامیہ نے اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہو کر ٹرمپ کی غلطی کی تلافی کرنے پر آمادگی کا دعوی کیا تھا لیکن اس نے پابندیوں کو بیعانے ﴿دباو ڈالنے کے آلے﴾ کے طور پر برقرار رکھا اور یہاں تک کہ اسلامی جمہوریہ کے خلاف اپنے کئی زبردستی اقتصادی اقدامات کا ایک سلسلہ بھی مسلط کیا۔
ایرانی سفارت کار نے مزید کہا کہ دباؤ، دھمکیاں اور تصادم حل نہیں ہیں اور کہیں بھں نہیں پہنچیں گے۔ اگر امریکہ واقعی مشترکہ جامع پلان آف ایکشن (جے سی پی او اے) کا احیاء چاہتا ہے تو اسے سفارت کاری پر انحصار کرنا ہوگا جبکہ ایران اپنی جانب سے بات چیت اور سفارت کاری کے لیے اپنے عزم پر زور دیتا ہے۔
امریکہ نے جے سی پی او اے کی بحالی اور پابندیوں کے نئے سرے سے خاتمے کے امکانات کو جانچنے کے لیے ہونے والے مذاکرات کے کئی دوروں میں جو زیادہ تر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ہوئے، اپنی روڑے اٹکانے والی اور غیر تعمیری پوزیشن کو برقرار رکھا ہے۔
معاہدے اور بات چیت کے لیے بائیڈن انتظامیہ کے نقطہ نظر نے ایران کو ٹرمپ کی ناکام جارحانہ پالیسیوں کے تسلسل کے لیے واشنگٹن پر تنقید کرنے پر اکسایا ہے۔
سعید ایروانی نے بات چیت اور سفارت کاری کے لیے ایران کے عزم پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم جے سی پی او اے کے احیاء پر ویانا مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں، ایک قابل قبول حل کے حصول کے لیے تعاون کی خاطر اور یہاں تک بھی تیار ہیں کہ جے سی پی او اے کے احیاء کا اعلان کرنے کے لیے جلد از جلد ایک خارجہ سطح کا وزارتی اجلاس کا اہتمام کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ان اہداف کے حصول کے لیے امریکہ کو حقیقی سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ایک تسلی بخش حل کی جانب کام کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ اسے جے سی پی او اے کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو مکمل طور پر پورا کرنا قبول کرنا ہوگا۔
ایرانی سفیر نے مزید کہا کہ گیند اب امریکی کورٹ میں ہے اور یہ امریکہ ہی ہے جسے اپنے قابل اعتماد ہونے اور اپنے وعدوں پر پورا اترنے کی صلاحیت کا ثبوت دینا ہوگا۔
آپ کا تبصرہ