ارنا رپورٹ کے مطابق، ان خیالات کا اظہار "سید ابراہیم رئیسی" آج بروز پیر کو ایک پریس کانفرنس کے دوران، گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی اندورنی صلاحیتوں اور مواقع پر توجہ انتہائی اہم ہے۔ ہمیں ملک کی اندرونی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا ہوگا تو اسی بنا پر پیداوار کا فروغ، تیرہویں حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ ہمیں اپنی ملکی صلاحیتوں اور ماہرین پر توجہ دینی ہوگی اور بعض حکومتوں کی طرح اغیار کے نقطہ نظر میں تبدیلی کا انتظار نہیں کرنا ہوگا۔
ایرانی صدر نے شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اور اس کی ایران اور چین اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات کے فروغ میں مدد سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ شنگھائی میں ہماری موجودگی اور شنگھائی کے رکن ممالک کے ساتھ ہمارا تعاون بہت اہم ہے اور یہ ہمیں ایشیائی اور اقتصادی ڈھانچوں سے جوڑتا ہے اور ہمارے ملک کے لیے یہ بہت اہم ہے کہ وہ خطے میں تجارت اور معیشت میں اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری خطے میں موجودگی علاقے میں قیام امن، سلامتی اور استحکام کا باعث ہوگئی لیکن جتنا ہم نے علاقائی سلامتی میں کردار ادا کیا ہے اتنا ہی علاقے کے اقتصادی شعبے میں کام نہیں کیا اور ہمیں اس حوالے سے مزید کوشش کرنی ہوگی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہم نے چین سے بہت سارے تعاون کیے ہیں اور ہمارا چین سے تعلقات بالخصوص اقتصادی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کیلئے پختہ عزم ہے اور یہ بین الاقوامی مسائل کے زیر اثر نہیں بلکہ دو آزاد ممالک کے تعلقات کے فریم ورک کے اندر ہی ہے۔
صدر رئیسی نے کہا ہم شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن بن گئے ہیں اور اس حوالے سے کچھ دستاویزات ہیں جن کا ہم جائزہ لے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان دستاویزات کا جائزہ لیا گیا ہے اور ازبکستان مین منعقدہ ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اگلے اجلاس میں اپنی رائے کا اظہار کریں گے۔ ان دستاویزات میں جن معاملات کی منظوری درکار ہے ان پر اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور اس رکنیت کا اعلان پہلے سے زیادہ سرکاری طور پر وہاں کیا جائے گا۔ بلاشبہ ہم اس تنظیم پہلے بھی ممبر تھے لیکن ان دستاویزات کا جائزہ لینے تک رکنیت موخر کر دی گئی۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ہماری رائے میں شنگھائی تعاون تنظیم اور ای سی اور تنظیم میں ہماری رکنیت، بین الاقوامی تعلقات بالخصوص پڑوسی ممالک سے تعلقات کا فروغ بہت اہم ہیں۔انہوں نے کہا کہ تمام ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات میں توازن کی بنیاد ہے، اور یہ توازن ہمیشہ ہماری خارجہ پالیسی کے ایجنڈے میں ہوتا ہے۔
ایرانی صدر نے ملک کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق ناجائز صہیونی ریاست کی لالچ اور اسلامی جمہوریہ ایران کا اس پر ردعمل سے متعلق کہا کہ جوہری طاقت اور صنعت، اسلامی جمہوریہ ایران اور ایرانی قوم کا جائز حق ہے اور ہم نے بارہا کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کی ایرانی دفاعی نظریے میں کوئی جگہ نہیں ہے اور قائد اسلامی انقلاب نے بھی ان ہتیھاروں کے استمعال کو حرام اعلان کردیا ہے؛ حکومت اور حکام بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں کی شریعت اور خارجہ پالیسی کے لحاظ سے ایران کی سیاست میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایرانی جوہری صنعت، زراعت، تیل اور گیس، طبی اور دیگر صنعتوں میں استعمال کی جاتی ہے اور ہماری ان شعبوں میں اس کی ضرورت ہے۔
صدر رئیسی نے کہا کہ ناجائز صہیونی ریاست ابتدا ہی سے یہ نہیں چاہتی کہ ایران، پُرامن جوہری سانس کا حصول کرے لیکن اب یہ سائنس ہمارے ملک میں مقامی بن گیا ہے۔
ایرانی صدر نے کہا کہ ناجائز صہیونی ریاست کی دہمیکوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور نہیں ہوگا۔ اور ایرانی جوہری سائنسدانوں کا قتل، ہماری جوہری سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالنے کے مقصد سے ہوا لیکن ہم نے پیچھے نہیں ہٹ گیا؛ ناجائز صہیونی ریاست کا کوئی بھی اقدام ہمارے راستے میں رکاوٹیں حائل نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ ناجائز صہیونی ریاست کو اپنی صورتحال پر نظر ڈالنی ہوگی۔ کیا وہ اینٹی پوائنٹ میزائل کا مقابلہ کرے گا یا نہیں؟ ایران تو وہ دور کی بات ہے۔ اگر ان میں مزاحمت کرنے کی بس تھی تو انہوں نے کیوں جنرل شہید سلیمانی کا قتل کیا؟
انہوں نے ناجائر صہیونی ریاست کے حکام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ اور عمل کے درمیان فرق کو دیکھیں اور اگر آپ ایران کے خلاف کاروائی کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو شاید آپ کے پاس عمل کرنے کی کوئی ڈیڈ لائن نہ ہو اور اس فیصلے اور عمل کے درمیان کا فاصلہ ظاہر کرتا ہے کہ اس ریاست میں کچھ باقی ہے یا نہیں؟
ایرانی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کیلئے اپنے مستقبل کے دورے نیویارک میں امریکی صدر سے کوئی سرکاری یا غیر سرکاری ملاقات کریں گے یا نہیں؟ کے سوال کے جواب میں کہا کہ گزشتہ سال کے دوران اس طرح کے سوال کے جواب میں میں نے "نہیں" کہا اور اب بھی نہیں کہتا ہوں۔ میرے اور ان کے درمیان ملاقات کی کوئی فائدہ نہیں ہے اور اس حوالے سے کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہیں ہوگا۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے @IRNA_Urdu
آپ کا تبصرہ