ارنا رپورٹ کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ "حسین امیر عبداللہیان" ایران کے دورے پر آئے ہوئے پاکستانی وزیر خارجہ "بلاول بھٹو زرداری" کی پریس کانفرنس کا آج بروز منگل کو انعقاد کیا گیا۔
امیر عبداللیہان نے پریس کانفرنس کے آغاز میں کہا کہ وہ آج پاکستان کے وزیر خارجہ کی میزبانی کرتے ہوئے بہت خوش ہیں، اسلامی دنیا کے دو عظیم ممالک ایران اور پاکستان کے درمیان گہرے تعلقات ان تمام سالوں میں امید افزا رہے ہیں اور ہم نے نئی حکومت میں تعاون کی ترقی پر مبنی تعلقات قائم کیے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج میرے پاس پاکستان کے وزیر خارجہ کے لیے ایک شاندار تحفہ ہے، میرے پاس محترمہ بے نظیربھٹو کے مشہد کے سفر اور امام رضا علیہ السلام کی زیارت کا ایک فوٹو البم ہے، میں یہ البم پہلے موقع پر بطور تحفہ ان کو پیش کروں گا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ہم نے دو طرفہ تعلقات اور تعاون اور سرحدی بازاروں اور تہران اور اسلام آباد کے درمیان مشترکہ نقطہ نظر اور سیاسی پوزیشنوں کو اپناتے ہوئے مقامی تجارت اور صوبائی تعاون کے فروغ کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے مزید کہا: "ہم نے بین الاقوامی میدان میں ثقافتی-سیاحتی تعاون کے ساتھ ساتھ اقتصادی اور تجارتی مسائل کے بارے میں بات کی۔دونوں ملکوں کے درمیان جو مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے وہ ایران سے پاکستان کو گیس کی برآمدات اور اس ملک کو برآمدات میں اضافے کا مسئلہ ہے، ہم نے اس پر بات کی۔ امریکی یکطرفہ پابندیوں کے باوجود، بین الاقوامی میدان میں ایسے میکنزم موجود ہیں جن سے ہمیں امید ہے کہ بہترین ممکنہ طریقے سے تعاون جاری رکھ سکیں گے۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ افغانستان اور فلسطین سمیت علاقائی مسائل بھی دوطرفہ بات چیت کا محور تھے، انہوں نے کہا کہ ہم یوکرین میں جنگ کے خلاف ہیں اور ہم اس بحران کے حل کے لیے ایران، روس اور یوکرین کے درمیان کام کرنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے زور دے کر کہ که ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں بحران کی جڑیں ایک جامع حکومت کے قیام سے خشک ہو جائیں گی۔ افغانستان کا حل ایک جامع حکومت کا قیام ہے اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان جتنی جلدی ہو سکے امن و سکون کی راہ پر گامزن ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران یمن میں جنگ بندی کی حمایت کرتا ہے، ہم یمن کا محاصرہ مکمل طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم یمن انٹراڈائیلاگ مذاکرات کی حمایت کرتے ہیں۔
انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ ایران فلسطین میں ایک متحد فلسطینی حکومت کی تشکیل پر زور دیتا ہے اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اسلامی ریاستوں کو صہیونی ریاست جو عالم اسلام کے خلاف جو دھمکی آمیز اور دشمنانہ اقدامات اٹھا رہی ہے کیخلاف متحد ہونا ہوگا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ اس ملاقات میں ہم نے آئی اے ای اے کی قرارداد کی منظوری اور مذاکراتی عمل کے بارے میں بات کی اور ایران نے کبھی بھی مذاکرات کی میز کو نہیں چھوڑا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی آخری نقطہ تک پہنچنے کا بہترین راستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے حالیہ مہینوں میں باقری کی ویانا میں مورا اور گروہ 1+4 ممالک کے ساتھ کیے گئے مذاکرات اور اس عرصے کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان پیغامات کے تبادلے میں ثابت کیا ہے کہ ہم مکالمے اور منطق کے لوگ ہیں اور ایک اچھے، مضبوط اور دیرپا معاہدے پر پہنچنے پر سنجیدہ ہیں۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ گذشتہ جمعرات کو پیغامات کے تسلسل کے باوجود امریکی فریق نے ایران پر دباؤ ڈالنے اور بالواسطہ مذاکرات میں پوائنٹس حاصل کرنے کے لیے ایک قرارداد پیش کی اور اس کے باوجود کہ امریکہ نے کہا کہ یہ قرارداد مواد سے خالی ہے۔ ہم نے نیا سیاسی پیکج میز پر رکھا لیکن امریکہ نے قرارداد پاس کرنے پر اصرار کیا۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ اب، قرارداد کے آگے، ایران کے مزید جوہری اقدامات ہیں۔ ہم بات چیت اور مذاکرات سے نہیں بھاگیں گے، اور اس سمت میں، مورا اور بورل کے ذریعے سفارتی ذرائع سے ہماری بات چیت کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔ ایران اچھے، مضبوط اور پائیدار معاہدے تک پہنچنے کے لیے سفارت کاری اور مذاکرات کی منطق سے دور نہیں ہوگا۔
ہمیں افغانستان میں عدم امن اور استحکام پر خدشات ہیں: پاکستانی وزیر خارجہ
در این اثنا پاکستانی وزیر خارجہ بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ میں اپنے بھائی امیر عبداللہیان کی دعوت پر ایران میں آکر خوش ہوں، جب میں ایران آتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں گھر آگیا ہوں۔ پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ ایران اور پاکستان بھائی بہن ہیں اور ہم ایران کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کی طرف سے میں اپنی خیر سگالی کا اظہار کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایران پاکستان کے لیے ایک اہم پڑوسی ہے اور اس میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں، اور مجھے امید ہے کہ ہم ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنا سکیں گے اور تعلقات کو آگے بڑھائیں گے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ آج ہم نے دو طرفہ تعلقات کے بارے میں بات کی، ہم نے دوطرفہ تعلقات کو بہتر بنانے کے طریقوں کی نشاندہی کی تاکہ ہم دوطرفہ تعلقات کو مناسب حد اور سطح تک بہتر بنا سکیں؛ ہم نے زائرین کے تبادلے اور سرحدوں کے محل وقوع اور ثقافتی تعلقات کے بارے میں بات کی اور ہم تجارت اور تعلقات کی راہ میں حائل بنیادی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہیں تاکہ ہم تجارت اور بارٹر میکنزم کے ذریعے مزید تعاون اور تجارت کر سکیں اور اپنی سرحدی منڈیوں اور تجارت کو وسعت دے سکیں۔
بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو وسعت دینے کی امید رکھتے ہیں، یہ ایران اور پاکستان کے عوام کے مفاد میں ہے اور یہ ایرانی عوام کی فلاح و بہبود اور خوشحالی کا باعث بنے گا۔ ہم توانائی بالخصوص بجلی کی درآمد میں اضافے کے لیے اپنے تعاون کو بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے قیدیوں کے تبادلے کے بارے میں بات کی اور ایران کی مہمان نوازی اور پاکستانی زائرین کو حج کی سہولت فراہم کرنے پر شکریہ ادا کیا اور ہم نے حجاج کرام کو مزید سہولیات فراہم کرنے پر بھی بات کی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے افغانستان کی نازک صورتحال کے بارے میں بات کی ۔ہمیں افغانستان میں استحکام اور سلامتی کے بارے میں تشویش ہے۔ ہم نے افغانستان میں بے گھر ہونے والے 40 لاکھ افراد اور افغانستان کی آزادی کے بارے میں بات کی۔ اس نازک وقت میں ہمیں کہ اس قوم کی حمایت کرنی ہوگی، ان کے مسدود وسائل کو جاری کیا جائے، اور خود گورننگ باڈی کو مزید جامعیت کی طرف بڑھنا ہوگا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے Irna_Urdu@
آپ کا تبصرہ