اصل مقصد مشرق اور مغرب پر عدم انحصار ہے: ایرانی وزیر خارجہ

تہران، ارنا- ایرانی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ "نہ مشرق اور نہ مغرب" کے نعرے کا مطلب مشرق اور مغرب سے الگ تھلگ اور دوری نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد مشرق اور مغرب پر عدم انحصار ہے۔

ارنا رپورٹ کے مطابق، "حسین امیر عبداللہیان" نے آج بروز منگل کو روضے امام خمینی (رہ) میں منعقدہ امام خمینی (رہ) کے مکتب میں متوازن خارجہ پالیسی کانفرنس میں قائداسلامی انقلاب اور امام راحل کے اہل خانون کو بانی اسلامی انقلاب کی 33 ویں برسی پر تعزیت کا اظہار کرلیا۔

انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کی 13ویں حکومت کی خارجہ پالیسی کے اصول اور امام خمینی کے افکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا امام راحل کے سیاسی افکار میں جب سے کیپٹلیشن کی مخالفت کی گئی ہے، بحث بالادستی اور تسلط کی نفی پر ہے، جسے گزشتہ چار دہائیوں سے اچھی طرح سے منظم کیا گیا ہے۔

امیر عبداللہیان نے مزید کہا کہ "نہ مشرق اور نہ مغرب" کے نعرے کا مطلب مشرق اور مغرب سے الگ تھلگ اور دوری نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد مشرق اور مغرب پر عدم انحصار ہے۔ اور اس نقطہ نظر تک پہنچنے کے بعد ہم نے ایشیا کو اپنے پڑوسیوں کی ترجیح کے ساتھ ایجنڈے میں رکھا، یقیناً تنقیدیں ہوئیں کہ آپ ملک کو چین اور روس کی طرف لے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ لہذا، یوکرین کی جنگ کے بعد، میں نے اپنے دورہ ماسکو کے دوران، روس کے وزیر خارجہ "سرگئی لاوروف" کے سامنے ایران کا موقف واضح طور پر بیان کیا اور کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران، اپنی خارجہ پالیسی میں آزادانہ طور پر اور اپنے قومی مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امام کی فکر میں جو اصول قائم تھے ان کے پیش نظر کسی بھی طرح سے کوئی نقص نہیں تھا اور نہ ہی مشرقی اور نہ مغربی سیاست قائم تھی اور ہم پر مغرب اور مشرق کا غلبہ نہیں رہے گا بلکہ ہمارے مفادات کی بنیاد پر دونوں فریقوں سے تعلقات ہوں گے۔

انہوں نے اس بات پر زوردیا کہ اور امام خمینی (رہ) نے اپنی عملی زندگی میں خارجہ پالیسی کے عہدیداروں کو اپنی سفارشات میں جو مسائل پیش کیے ان میں سے ایک بین الاقوامی ذمہ داریوں کی پاسداری ہے۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ہمارا مخاطی وائٹ ہاؤس ہےـ ویانا میں ہونے والے مذاکرات، پابندیوں کے معاملے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں، جن میں سے زیادہ تر امریکہ کی طرف سے لگائی گئی یکطرفہ پابندیاں ہیں، اور ہماری بات چیت پیغامات کے تبادلے اور  نان پیپر کی صورت میں جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری بات چیت یورپی یونین کے نمائندے کے ذریعے ہو رہی ہے، اور ایک ہفتے سے بھی کم وقت ہوا ہے کہ یورپ کے ذریعے بالواسطہ طور پر ایک یا دو پیغامات کا تبادلہ کیا گیا ہے تاکہ راستے میں رکاوٹیں ہٹائی جا سکیں۔

انہوں نے کہا کہ تین ماہ سے بھی کم عرصہ قبل جب میں میونخ میں تھا، سینئر امریکی حکام مجھ سے براہ راست بات چیت کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے تاکہ ہم بات چیت کا راستہ صاف کر سکیں اور آگے بڑھ سکیں۔ ہمارے لیے دوسری طرف کا جواب دینے کے لیے، ہم نے پہلا نکتہ یہ بنایا کہ امریکی فریق کو عملی طور پر یہ دکھانا ہوگا کہ اس کا راستہ ٹرمپ کے راستے سے مختلف ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے کہا کہ مسٹر بائیڈن کا یہ کہنا کہ میں نیک نیتی رکھتا ہوں اور ٹرمپ کے طریقہ کار کو قبول نہیں کرتا، کو عملی طور پر ظاہر کرنا ہوگا؛ لیکن بات یہ ہے کہ میں نے سیکریٹری آف اسٹیٹ سے کہا کہ وہ میونخ میں سینئر امریکی حکام کو پیغام بھیجیں کہ ہمیں بتائیں کہ اگر آپ کے بعد وائٹ ہاؤس میں کوئی باغی گروپ بننے والا ہے، تو ہم اطلاع دیں۔

امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران میں پچھلی حکومت نے جوہری معاہدے کو قبول کیا لیکن نئی حکومت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم جوہری معاہدے کو قبول نہیں کریں گے اور نئے معاہدے کی بات کریں گے۔ ہمارے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ آپ جوہری میں واپس کیوں جانا چاہتے ہیں؟ تو ہمارا جواب یہ ہے کہ  وعدوں کی پاسداری ہمارے ایجنڈے میں شامل ہے۔

**9467

ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@

متعلقہ خبریں

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .