ارنا رپورٹ کے مطابق، اس میگزن نے ایک مضمون میں مزید کہا کہ طالبان کی حکومت،مارچ میں لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کے اپنے وعدے کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کے بعد افغان خاندانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد نے پڑوسی ملک ایران میں پناہ لی ہے۔ اب آٹھ ماہ سے زیادہ عرصے سے، افغانستان میں لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔
وہ لڑکیاں جو اگست 2021 میں امریکہ کی بے دخلی اور طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد ملک میں بدامنی کی وجہ سے ابتدائی طور پر چھ ماہ تک کلاس روم سے باہر رہیں، انہیں بار بار کہا گیا کہ وہ نئے تعلیمی سال کے آغاز پر اپنی تعلیم مکمل کر سکتی ہیں۔
لیکن بدھ، 23 مارچ کو، جیسے ہی ہزاروں نوعمر لڑکیاں پورے افغانستان میں اسکول واپس آئیں، طالبان نے آخری لمحات میں اپنا ارادہ بدل لیا؛ اسکولوں کے باہر تعینات طالبان کے محافظوں نے انہیں داخلے سے روک دیا اور طلباء کی آنکھوں کو آنسو سے بھر کر گھروں کو لوٹے پر مجبور کیا۔
ایران کے شمال مشرق میں واقع شہر مشہد میں مڈل ایسٹ آئی سے بات کرنے والے ذرائع نے بتایا کہ گزشتہ چھ ہفتوں میں خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کے لیے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے والے اسکولوں میں داخلے میں اضافہ ہوا ہے۔
ان اسکولوں کے ایک پرنسپل نے کہا کہ اگرچہ تعلیم لوگوں کو ایران کی طرف راغب کرنے کا بنیادی عنصر نہیں ہے، لیکن یہ ایک اہم عنصر ہے۔ اسکول کے پرنسپل جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہیں کیا، واضح کیا کہ اگر ان خاندانوں کے یہاں آنے کی پہلی وجہ تعلیم نہیں ہے، تو یہ ضرور اگلی وجہ ہے۔
مڈل ایسٹ کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ حالیہ مہینوں میں، دہشت گرد گروہ داعش نے افغانستان کے کئی صوبوں میں اسکولوں، تربیتی مراکز اور عبادت گاہوں پر وحشیانہ حملے کیے ہیں۔
یہ حملے ایک ایسے وقت میں ہوئے جب طالبان نے ان کی برسر اقتدار آنے اور افغانستان میں امریکی قبضے کے خاتمے کے بعد، ملک میں قیام سلامتی کا بار بار دعوی دیا تھا۔
تاہم، ایک بین الاقوامی تنظیم کا کہنا ہے کہ تقریباً 20 ملین افغان باشندے، یا 47 فیصد آبادی، کساد بازاری، خشک سالی، امداد میں کٹوتی اور طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد افغانستان کے اربوں کے اثاثوں سے واشنگٹن کی محرومی کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔
اساتذہ اضافی شفٹیں لے رہے ہیں
سجادی نے کہا کہ اسکول نے ایک دن میں تین کلاس شفٹوں کا انعقاد شروع کیا ہے جس میں اساتذہ اضافی تنخواہ کے بغیر رضاکارانہ بنیادوں پر اضافی سبق پڑھاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر ہم دن میں تین شفٹوں کو پڑھانا جاری رکھیں اور طلباء کا داخلہ جاری رکھیں تو بھی ہزاروں طلباء اسکول نہیں جا سکیں گے۔
سجادی نے کہا کہ وہ ہمارے اسکول کے ذہین طالب علم ہیں۔ میں دیکھ سکتا ہوں کہ وہ مطالعہ کے لیے کتنے بے چین ہیں۔
ایک لڑکیوں کے اسکول کی ٹیچر "کاملیا" نے کہا کہ وہ اپریل سے کئی دوسرے صوبوں سے آنے والی طالبات کو خوش آمدید کہہ رہی ہیں جو اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
کامیلا نے مزید کہا کہ یہ خاندان دوسرے صوبوں یا ممالک میں چلے جاتے ہیں، جس کی وجہ یہ ہے کہ افغان لڑکیاں اور خواتین تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
اس کے باوجود طالبان نے افغان مردوں اور عورتوں کی روزمرہ کی زندگیوں پر پابندیاں سخت کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے، طالبان گروپ نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ تمام خواتین اپنے چہرے ڈھانپیں اور صرف ضرورت پڑنے پر ہی گھر سے باہر نکلیں- دروازہ نہ کھولیں تو لہذا سکول کھولنا آسان نہیں رہا۔
کامیلا نے مزید کہا کہ ہمیں بلخ کے محکمہ تعلیم سے مذہبی ضوابط اور لباس کے حوالے سے ہدایات موصول ہوئی ہیں، کاملیا نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طالبان ان کے احکامات پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اچانک معائنہ کریں گے۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ