ارنا رپورٹ کے مطابق، اس امریکی اخبار نے مزید کہا کہ ایران نے اتوار کی صبح کو شمالی عراق پر کیے گئے بیلسٹک میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔
اس اخبار نے میزائل حملے کو "طاقتور میزائل" کا استعمال قرار دیتے ہوئے ایرانی میڈیا کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ حملہ "صیہونی حکومت کے حالیہ جرائم کے جواب میں کیا گیا ہے۔" ایسا لگتا ہے کہ یہ راکٹ حملہ شام میں پاسداران انقلاب اسلامی کے دو اہلکار کی شہادت کے جواب میں کیا گیا ہے جو صیہونی حملے میں شہید کیے گئے تھے۔
اس حملے نے امریکی ایرانی پراکسی اور عراقی سرزمین پر سیاسی تنازعہ میں تناؤ کو بڑھا دیا ہے کیونکہ دونوں فریقین، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی برطرفی کے بعد جوہری معاہدے میں واشنگٹن کی واپسی پر بات چیت کر رہے ہیں۔
یہ مذاکرات فی الحال روس کے یوکرین کیخلاف حملے کی وجہ سے تعطل کا شکار ہیں۔
یہ میزائل حملہ اتوار کی دوپہر 1:30 بجے ایران سے عراقی علاقے کردستان کے دارالحکومت اربیل شہر کے کچھ حصوں پر کیا گیا۔ علاقے کردستان کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے 12 میزائلوں کی نشاندہی کی ہے جس سے کئی عمارتوں اور گاڑیوں کو نقصان پہنچا لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک میزائل، امریکی قونصل خانے کی نئی زیر تعمیر عمارت سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر لگا۔ ایک اور میزائل نے بھی علاقے کردستان 24 نیوز نیٹ ورک کی عمارت کو نشانہ بنایا ہے؛ اس حملے میں اس نیٹ ورک کے ایک نیوز روم کو نقصان پہنچا۔
لیکن جب تک کہ ایران نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی، عراق کے سینئر حکام نے حملہ آور کا نام بتانے سے انکار کر دیا، اور یہ عراق میں ایران کے کردار کے بارے میں گہری حساسیت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں تہران کی اقتصادی اور سیاسی طاقت مضبوط ہے۔
اتوار کی صبح کو کیے گئے میزائل حملوں کے صحیح اہداف واضح نہیں تھے۔ ایرانی بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ میزائلوں کا مقصد صیہونی حکومت کی انٹیلی جنس سروسز سے متعلق مقامات کو نشانہ بنانا تھا۔ ایک امریکی عہدیدار نے اپنے عراقی ہم منصب سے گفتگو کے مطابق کہا ہے کہ عراقی کردستان کے علاقے اربیل پر ایرانی میزائل حملے ایسے گھر پر تھے جن میں موساد گروہ کی سرگرم ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا۔
عراقی علاقے کردستان کے حکام نے موساد کے مقامات کی موجودگی سے انکار کیا ہے، لیکن دھماکے کی کسی بھی جگہ کی کوئی تصویر بھی جاری نہیں کی ہے۔
اگرچہ امریکی جنگی دستے عراق سے نکل چکے ہیں، لیکن ملک کے کچھ فوجی اور انٹیلی جنس اہلکار اب بھی اربیل بین الاقوامی ہوائی اڈے کے اندر ایک کمپلیکس میں سرگرم عمل ہیں۔
**9467
ہمیں اس ٹوئٹر لینک پر فالو کیجئے. IrnaUrdu@
آپ کا تبصرہ