نیویارک ٹائمز کے تازہ مضمون میں آیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین حالیہ کشیدگی کے نتیجے میں ہندوستان نے اعلان کردیا کہ جب تک پاکستان بقول ان کے دہشت گردی کی حمایت جاری رکھے گا تب تک "سندھ طاس معاہدہ" بھی معطل رہے گا۔
سن 1960 میں ورلڈ بینک کی ثالثی میں طے شدہ اس معاہدے کے تحت پاکستان کو نامحدود مدت تک دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں کے پانی تک منصفانہ دسترسی حاصل ہوگی لیکن پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے بعد صورتحال تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے۔
پاکستان نے سندھ طاس معاہدے کے تعطل کو "جنگی اقدام" قرار دیا ہے کیونکہ دریائے سندھ کے پانی کو روکنے کے نتیجے میں آبی ذرائع سے وابستہ پاکستان کی صنعت ذراعت بری طرح متاثر ہوسکتی ہے۔
نہ صرف صنعت ذراعت بلکہ پاکستان کی معیشت کا چوتھائی حصہ اور 37 فیصد افرادی قوت دریائے سندھ کے پانی سے وابستہ ہے۔
عالمی درجہ حرارت میں اضافہ، سیلاب، دریاؤں کی طغیانی، گلیشیئروں کا پگھلنا یہ سب اس سے قبل بھی پاکستان کو بری طرح متاثر کرچکے ہیں جس کا ایک نمونہ سن 2022 کے تباہ کن طوفان میں دیکھا گیا۔
ایسی حالت میں نئی دہلی نے پانی کے بہاؤ اور حجم کا ڈیٹا دینے سے بھی انکار کردیا ہے جس سے اسلام آباد میں بری طرح تشویش پھیل گئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں درج ہے کہ ہندوستان بنیادی تنصیبات نہ ہونے کی وجہ سے قلیل المدت میں دریائے سندھ کے پانی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے تاہم اس معاہدے کو معطل کرنے کی اصل وجہ اسلام آباد کو نئے معاہدے پر مجبور کرنا بتایا گيا ہے۔
نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ دوسری جانب ہندوستان کو اپنے زیرانتظام کشمیر کے حالات پر قابو کرنے اور دیگر علاقوں میں زراعت، بجلی کی پیداوار اور دیگر آبی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نئے معاہدے کی شدت سے ضرورت ہے، لیکن نئی دہلی اور اسلام آباد کے مابین جیوپالیٹیکل دوڑ کے پیش نظر، ایسے کسی بھی نئے معاہدے تک فوری دسترسی مشکل دکھائی دے رہی ہے۔
آپ کا تبصرہ