انہوں نے کہا کہ ایک جانب ہم پر پابندی عائد کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ میزائل بلکہ کوئی بھی ہتھیار نہ رکھو اور دوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں، حالانکہ مذاکرات میں وقار کا تحفظ ضروری ہے۔
صدر پزشکیان نے جمعرات کو صوبہ تہران کے بااستعداد اور بہت زیادہ ذہانت رکھنے والے طلبا سے ملاقات کے دوران لبنان اور غزہ میں صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اسرائیل کی مجرم حکومت نے غزہ، لبنان اور فلسطین میں کیا اسے کوئی بھی باضمیر انسان قبول نہیں کرسکتا۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ اور یورپ نے صیہونیوں کو میزائلوں اور بموں سے نواز کر صیہونی حکومت کے وحشیانہ جرائم کی بھرپور حمایت کی۔
صدر مسعود پزشکیان نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک طرف ہمارا گلا دبایا جائے اور پھر ہمیں مذاکرات کی پیش کش کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دشمن یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم دھونس دھمکیوں میں آکر ان کی ہر بات مان لیں گے جبکہ ہم صرف اس وقت مذاکرات کریں گے جب ہمارے وقار پر آنچ نہ آئے۔
صدر مملکت نے اپنی تقریر کے دوران یہ بھی کہا کہ اگر آج ایک ارب مسلمان برادری کے راستے کا انتخاب کرتے تو 20 لاکھ صیہونی، مسلمانوں کا یہ حال نہ کرتے۔ انہوں نے کہا کہ صیہونیوں نے قومی اور مذہبی اختلاف ڈال کر ہم میں دشمنی پیدا کردی ہے اور دوسری طرف امریکی حمایت کی آڑ میں بچوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگ اسرائيل سے ڈرے بیٹھے ہیں کیونکہ اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے لیکن ہم نہ خوفزدہ تھے نہ رہیں گے اور یہ وہ وقار ہے جس کا ہمارے معاشرے نے انتخاب کیا ہے۔
آپ کا تبصرہ