واضح رہے روئٹرز نیوز ایجنسی نے دعوی کیا تھا کہ " ایران نے چین کے لئے تیل کی برآمدات روک دی ہے کیونکہ تہران اپنے اصل گراہک سے زیادہ قیمت کا مطالبہ کر رہا ہے اور اب اس نے دنیا میں کچے تیل کے سب سے بڑے خریدار کے لئے سستا تیل دینے کا سلسلہ بند کر دیا ہے۔"
روئٹرز کا یہ دعوی ایسے حالات میں ہے کہ جب کپلر کے مطابق گزشتہ دسمبر میں ایران سے چین کو تیل کی برآمدات 1.2 ملین بیرل یومیہ ہو گيا ہے اور ایران نے تو نومبر میں چین کو تیل کی برآمدات یومیہ 1.5 ملین بیرل تک پہنچا دی تھی۔
ایران کے پیٹرولیم کے وزیر جواد اوجی نے بھی بارہا بتایا ہے کہ ایران کے تیل کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور ایران نے برآمد ہونے والا 91 فیصد تیل چین کو بیچتا ہے۔
ایران و چین کے مشترکہ ایوان تجارت کے سربراہ مجید رضا حریری نے ارنا سے ایک گفتگو میں بتایا ہے کہ چین کو ایران کی جانب سے تیل کی فروخت میں ڈسکاؤنٹ میں گزشتہ برس سے کمی آ رہی ہے تاہم پابندیوں کی وجہ سے ڈسکاؤنٹ کے بارے میں زیادہ تفصیلات کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔
انرجی کے ماہر علی رضا ستودہ کا بھی کہنا ہے کہ چین کی ریفائنریوں کی صلاحیت اور ایران کی برآمدات میں اضافے کے پیش نظر، چین کو برآمدات رکنے کی خبریں بے بنیاد ہيں۔
انہوں نے کہا کہ روئٹرز نے جان بوجھ کر یہ خبر پھیلائي ہے تاکہ ایران کے اندر نفسیاتی اثرات مرتب ہوں اور اس خبر پر ایرانی عہدیداروں کے رد عمل سے وہ ایران کے تیل کی برآمدات کے بارے میں زیادہ معلومات بھی جمع کر لیں۔
آپ کا تبصرہ