قطر کے ٹی وی چینل الجزیزہ کے مطابق، مقتدی صدر کے حامیوں نے سویڈن کے سفارت خانے میں آگ لگائی اور پھر وہ اس میں داخل ہو گئے۔
یہ واقعہ ایسے حالات میں ہوا ہے کہ جب بدھ کے روز عراقی وزير خارجہ نے اپنے سویڈن کے ہم منصب سے ایک گفتگو میں زور دیا تھا کہ اسلام اور قرآن کی اس طرح کی بے حرمتی کا سلسلہ بند کیا جانا چاہیے۔
عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے بتایا ہے کہ عراقی وزیر خارجہ فواد حسین نے قرآن کی بے حرمتی کرنے والے شخص کی جانب سے پھر سے توہین کی دھمکی کے سلسلے میں سویڈن کے نائب وزير اعظم اور وزیر خارجہ ٹوبیس بل اسٹروم سے ٹیلی فونی گفتگو کی ہے ۔
فواد حسین نے اس طرح کے اقدامات کو خطرناک قرار دیتے ہوئے سویڈن کی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مقدسات کی توہین کے اس سلسلے کو روکے اور ذمہ داروں کے خلاف قدم اٹھائے۔
اس سے قبل 29 جون کو بھی عراقیوں نے سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف مظاہرہ کیا تھا اور سویڈن کے سفارت خانے میں بھی مظاہرین داخل ہو گئے تھے۔
اسی دوران عراقی وزارت خارجہ نے بھی بغداد میں سویڈن کے سفیر کو طلب کرکے، قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔
عراقی وزارت خارجہ نے سویڈن سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عراقی نژاد " سلوان ممیکا" کو عراق کے حوالے کرے تاکہ عراقی قوانین کے مطابق اس پر مقدمہ چلایا جا سکے۔
عراق کے حکومتی ترجمان نے بھی سویڈن میں قرآن مجید کی بے حرمتی کی شدید الفاظ میں مذمت کی تھی۔
عراقی شیعوں کے مرجع تقلید آيت اللہ العظمی سید علی سیستانی نے بھی 29 جون کو ایک بیان اور اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے نام اپنے ایک پیغام میں، سویڈن کی حکومت کی اجازت سے اس ملک میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے بارے میں کہا: آزادی اظہار رائے کا احترام، دنیا کے 2 ارب سے زائد مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی کا جواز نہيں بن سکتا۔
واضح رہے کہ گزشتہ 28 جون کو سویڈن کے ایک شدت پسند نے پولیس کے تحفظ میں، اس ملک کے دار الحکومت میں سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن مجید کی بے حرمتی کی تھی جبکہ وہاں تقریبا 200 مسلمان موجود تھے۔
گزشتہ کچھ برسوں کے دوران یورپی ملکوں، خاص طور پر اسکینڈینیویئن علاقے کے ملکوں میں مسلمانوں کے مقدسات کی بے حرمتی اور اس پر مسلمانوں کے مظاہروں کو دبانے کا سلسلہ بڑھ گيا ہے۔
آپ کا تبصرہ